• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تسلیم جہاں کے معاملہ میں اتراکھنڈ حکومت سے جواب طلب

Updated: September 14, 2024, 1:06 PM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

جمعیت علماء ہند کی عرضی پرسپریم کورٹ نے اجتماعی آبروریزی اور بہیمانہ قتل کے اس واقعہ کی سنگینی کومحسوس کیا، ریاستی پولیس کی تفتیش اورغیر پیشہ ورانہ رویہ پر بھی سوا ل اٹھایا ،مولانا ارشد مدنی نے عدالتی فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔

Supreme Court Building. Photo: INN
سپریم کورٹ کی عمارت۔ تصویر : آئی این این

اتراکھنڈ میں مسلم نرس تسلیم جہاں کی اجتماعی آبروریزی کے بعدبہیمانہ طور پر قتل کے معاملہ میں  انصاف کی جدوجہد رنگ لاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ نےجمعیت علماء ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے معاملہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اتراکھنڈ کی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اتراکھنڈ کی حکومت کے ذریعہ اس معاملہ میں تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی کی تفتیش بھی اب تک غیر اطمینان بخش رہی ہے۔ 
 آج سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف انڈیاکی سربراہی والی تین رکنی بنچ کے سامنے جمعیت علماء ہند کی طرف سے پیش سینئر ایڈوکیٹ نتیا راماکرشنن نے ریاستی پولیس کی غیر اطمینان بخش تفتیش پر عدالت کی توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے بنچ کو بتایاکہ پولیس کا رویہ اول یو م سے ہی غیر پیشہ وارانہ رہا ہے۔ مقتولہ کی گمشدگی کے باوجودوپولیس انے ایک ہفتہ تک کوئی کارروائی نہیں  کی، عوامی احتجاج کے بعد ایک ملزم کو گرفتار کیا۔ انہوں نےمزید کہاکہ تسلیم جہاں  کی ۱۱؍سالہ بچی ماں  کے انتظار میں  روتی بلکتی رہی، لیکن پولیس نے ایک ہفتہ کے بعدمقتولہ کی گلی سڑی لاش برآمد کرکے پیش کی۔ ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے اتراکھنڈ پولیس کو گھیرتے ہوئے بتایا کہ گمشدگی کے تعلق سے ۲۰۰۲ء میں  جاری سپریم کورٹ کے گائیڈ لائنس پر بھی عمل نہیں  کیا گیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہیں  کیا گیا تو اس معاملہ کو محض خانہ پری کے بعد بند کردیا جائےگا۔ جس کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا کی بنچ نے پہلے اس معاملہ کواتراکھنڈ ہائی کورٹ بھیجنے کا اشارہ کیا، تاہم پھر اس عرضی کو قبول کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے اس معاملہ میں  جواب طلب کرلیا۔ 
  صدر جمعیت علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے تسلیم جہاں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ اتراکھنڈ سرکار کو نوٹس جاری کرنے کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئےکہاکہ جو کام حکومتوں  کا تھا، وہ بھی اب عدلیہ کو کرنا پڑرہاہے۔ یہ حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے کہ تسلیم جہاں کو انصاف دلانے کے لئے ہمیں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا، حالانکہ یہ کولکاتہ میں  پیش آئے واقعہ سے بھی کہیں زیادہ دلخراش اوربہیمانہ ہےلیکن اس کو نہ تو میڈیا میں  اہمیت دی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں  نے قابل اعتناء سمجھا۔ انہوں نےکہا کہ اب کہیں جاکر نہ صرف ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے بلکہ اب ہم اس مقدمہ کو سپریم کورٹ میں  پوری طرح سے لڑنےکیلئے تیار ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ واقعہ اس قدر دردناک ہے کہ خود سپریم کورٹ کو بھی اس سنگینی کا احساس کرناپڑا۔ انہوں نے کہا کہ کولکاتہ واقعہ پرملک بھر میں  احتجاج اور مظاہرے کئے گئے، ڈاکٹروں نے ہڑتال کی اور میڈیا نے کئی دنوں تک اس معاملے پر بحثیں کیں مگر تسلیم جہاں کے معاملے میں ہر طرف سے خاموشی رہی کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ انہوں نےسوال کیا کہ آیا اب ملک میں انصاف بھی مذہب کی بنیاد پر ہی دیا جائےگا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں اگر قانون کے مطابق شفافیت کے ساتھ کاروائی ہوئی ہوتی تو شاید جمعیت علماء ہند کو سپریم کورٹ کا رخ نہیں کرنا پڑتا۔ انہوں نے یقین کا اظہار کیاکہ تسلیم جہاں کودیگر معاملوں کی طرح ہی سپریم کورٹ سے انصاف ملےگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK