آئین اور جمہوریت کیلئے خطرہ بتایا، جسٹس سُنندا بھنڈارے میموریل لیکچر میں عدلیہ سے ذمہ داری نبھانے کی اپیل کی۔
EPAPER
Updated: February 24, 2025, 12:04 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
آئین اور جمہوریت کیلئے خطرہ بتایا، جسٹس سُنندا بھنڈارے میموریل لیکچر میں عدلیہ سے ذمہ داری نبھانے کی اپیل کی۔
سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اور ممتاز ماہر قانون ایڈووکیٹ اندرا جے سنگھ نےچور دروازے سے آئین کو بدلنے کی کوششوں پر تشویش کااظہار کیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ باقاعدہ ترمیم کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قوانین کی نئی تشریح کرکے آئین کو بدلنے کی کوشش ہورہی ہے جو نہ صرف آئین بلکہ جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ سنیچر کو انہوں نے جسٹس سنندا بھنڈارے سے موسوم ۲۹؍ ویں میموریل لیکچر سے خطاب کرتے ہوئےملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوششوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ایک سیکولر آئین کے تحت ہندو راشٹر کا وجود نہیں ہو سکتا، اس لئے ہندوستانی آئین کو رسمی ترامیم کے بغیر، خاص طور پر قانون سازی اور عدالتی طریقوں کے ذریعے قوانین کی نئی تشریاحات کے ذریعہ چور دروازے سے کوششیں ہورہی ہے۔ اس میموریل لیکچر میں سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس مدن بی لوکور، دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائےاور جسٹس ویبھو بکھرو بھی موجودتھے۔
اندر اجے سنگھ نےکہا کہ سیکولرازم کا تحفظ ’مسلمانوں کی ناز برداری نہیں ہے ‘بلکہ یہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس آف انڈیا پر تنقید کی جنہوں نے ملک کے پرچم کو انصاف کی علامت قرار دیا تھا۔ سینئر وکیل نے کہاکہ ان کی رائے میں صرف آئین ہی انصاف کی علامت رہا ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ سیکولرازم کے بغیر ہندوستان میں نہ صرف نفرت کی خانہ جنگی ہوگی بلکہ بیرونی حملوں کیلئے بھی راہ ہموار ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اکثریت پسندانہ نظریات سے ہم آہنگ ہونے کیلئےقوانین کی دوبارہ تشریح ایک کثیر مذہبی ملک میں سیکولرازم کیلئے خطرہ کا باعث ہے اوراس سے خود ریاست کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرہ ہےانہوں نے نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر کےاس بیان پر بھی سخت اعتراض کیا کہ ملک کےاندر بچوں کو آئین کی اصل کاپی تقسیم کی جانی چاہئے جس پرملک کے بانیوں کے دستخط موجود ہیں اور اس میں رام جی کی تصویر ہے۔
اندر ا جے سنگھ نے کہاکہ نائب صدر جمہوریہ کا بیان پوری طرح سے غلط ہے اور یہ اصل آئین کا حصہ نہیں۔اصل آئین کی صرف تین کاپیاں ہیں ۔ دوپارلیمنٹ اور ایک سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ تصویر کا اضافہ ۱۹۵۴ء میں کیا گیا تھا۔سینئر وکیل نے آئین کے آرٹیکل ۲۵؍ اور ۲۶؍ کے تناظرمیں کہا کہ عقیدہ اور مذہب قانون سازی کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق آئین کے تحت تمام افراد کے لیے محفوظ ہے۔ انہوںنے اس بات پر افسوس کا اظہارکیا کہ لوگ زیادہ تر’مذہب‘ کے پہلو پر توجہ دیتے ہیں اور’ضمیر‘ کو نظر انداز کرتے ہیں۔نئے فوجداری قوانین پر تبصرہ کرتےہوئے انہوںنے کہا کہ اس میں اس کا تاثر دیا گیا کہ اس کو نوآبادیاتی انصاف کے نظام سے آزاد کیا گیا،لیکن دراصل ہم سے’پولیس اسٹیٹ‘ کے سامنے خود سپردگی اور پولیس اسٹیٹ کے وجود کو تقویت فراہم کیا گیا۔اندرا جے سنگھ نے عدالتی فیصلوں میں بھگوان سے رہنمائی حاصل کرنے کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کے تبصرے پربھی طنز کیا اور کہاکہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کووہ لوگ تباہ کررہے ہیں جنہیں اس کا دفاع کرنا چاہئے۔‘‘