Updated: May 16, 2024, 2:54 PM IST
| Mathura
شاہی عیدگاہ معاملے پر گزشتہ دن ہندو فریق نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ ۱۹۶۸ء کے سمجھوتے کے ایک حصے کے طور پر مندر کمیٹی نے زمین کا وہ متنازع حصہ چھوڑ دیا تھا جس پر مسجد کھڑی ہے۔ مسلم فریق کی وکیل تسلیمہ عزیز احمدی نے اعادہ کیا کہ اس مقدمے میں حد بندی کی گئی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سمجھوتے کو چیلنج کرنے کی حد تین سال ہے اور موجودہ مقدمہ ۲۰۲۲ء میں دائر کیا گیا تھا۔
متھرا میں شاہی عیدگاہ۔ تصویر: آئی این این
متھرا، اتر پردیش میں شاہی عیدگاہ مسجد تنازع میں ہندو درخواست گزاروں نے بدھ کو الہ آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان ۱۹۶۸ء کا سمجھوتہ دھوکہ دہی پر مبنی تھا۔ واضح رہے کہ ۱۹۶۸ء میں شری کرشنا جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔ تصفیہ کے ایک حصے کے طور پر، مندر کمیٹی نے زمین کا متنازع حصہ عیدگاہ کو دے دیا تھا جس پر اتر پردیش کے متھرا میں مسجد کھڑی ہے۔ سمجھوتے کے بعد دونوں عبادت گاہوں کیلئے ایک ساتھ کام کرنے کیلئے سرحدیں دوبارہ بنائی گئیں اور ایک دیوار کے ذریعے انہیں علاحدہ کیا گیا۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ مسجد میں مندر کی طرف کوئی دروازہ، کھڑکیاں یا کھلی نالیاں نہیں ہوں گی۔
یہ بھی پڑھئے: سنیل چھیتری کا انٹرنیشنل فٹ بال سے ریٹائرمنٹ کا اعلان، آخری میچ ۶؍ جون کو
ہندو درخواست گزاروں نے اس سمجھوتہ کو چیلنج کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ سنی سینٹرل وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی کے ذریعہ دھوکہ دہی کی گئی ہے۔ انہوں نے مسجد کے ارد گرد ۳۷ء۱۳؍ ایکڑ اراضی کی مکمل ملکیت کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ہندو دیوتا کرشنا کی جائے پیدائش ہے۔بدھ کو، ہندو فریقین کے وکیل نے جسٹس مینک کمار جین کو بتایا کہ کرشنا کی جائے پیدائش کو ۱۶؍ ویں صدی میں منہدم کر دیا گیا تھا اور ایک چبوترہ عیدگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ مینک کمار ایک درخواست کی سماعت کر رہے تھے جس میں مسجد کو ہٹانے کے مقدمے کی برقراری کو چیلنج کیا گیا تھا۔
مسلم فریق کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے، ایڈوکیٹ تسلیمہ عزیز احمدی نے اعادہ کیا کہ اس مقدمے میں حد بندی کی گئی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سمجھوتے کو چیلنج کرنے کی حد تین سال ہے اور موجودہ مقدمہ ۲۰۲۲ء میں دائر کیا گیا تھا۔ حد سے مراد وہ ٹائم فریم ہے جس کے اندر کوئی شخص کسی معاملے میں قانونی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ ہندو فریق کی طرف سے ۱۹۶۸ء کے سمجھوتہ کو چیلنج کیا جا رہا تھا جس کی تصدیق ۱۹۷۴ء میں ہونے والے دیوانی مقدمے میں ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: عالمی عدالت نے رفح میں اسرائیلی آپریشن کے خلاف سماعت شروع کی
ہندو درخواست گزاروں نے کہا کہ کرشنا نہ تو ۱۹۶۸ء کے سمجھوتے میں فریق تھے اور نہ ہی ۱۹۷۴ء کے مقدمے میں۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ شری کرشنا جنم استھان سیوا سنستھان کو اس طرح کے کسی سمجھوتے میں داخل ہونے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ اس کا مقصد صرف مندر کی روزمرہ کی سرگرمیوں کا انتظام کرنا ہے۔ یاد رہے کہ ۱۵؍ اپریل کو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر روک بڑھا دی جس میں عدالت کی نگرانی میں مسجد کے ’’سائنسی سروے‘‘ کی اجازت دی گئی۔ ۱۴؍ دسمبر کو ہائی کورٹ نے ایک درخواست کی اجازت دی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کرشنا جنم بھومی مندر سے متصل مسجد کا معائنہ کرنے کیلئے ایک کورٹ کمشنر کا تقرر کیا جائے۔
مسجد کی انتظامی کمیٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور مطالبہ کیا کہ مسجد کے سروے کیلئے ہندو درخواست گزار کی درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا جائے کہ اسے عبادت گاہوں کے خصوصی پروویژن ایکٹ ۱۹۹۱ء کے ذریعے روک دیا گیا تھا، جو مذہبی کردار میں کسی قسم کی تبدیلی کو منع کرتا ہے۔ کمیٹی نے سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کو مقدمے کے سلسلے میں دائر کی گئی متفرق درخواستوں پر فیصلہ کرنے سے پہلے ہندو فریقین کی جانب سے درخواست مسترد کرنے کی درخواست پر غور کرنا چاہئے تھا۔