• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شرجیل امام، آصف اقبال،صفورہ زرگر بَری ہوگئے

Updated: February 05, 2023, 10:22 AM IST | new Delhi

ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے جامعہ تشدد کیس سے۸؍ دیگر ملزمین کو بھی ڈسچارج کیا، دہلی پولیس کے بخیے ادھیڑ دئیے ،کہا کہ پولیس کی من مانی نہیں چلے گی

Asif Iqbal Tanha and Sharjeel Imam have got great relief
آصف اقبال تنہا ؔ اور شرجیل امام کو بڑی راحت ملی ہے

دہلی کی عدالت نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہنے والے معروف طلبہ لیڈران شرجیل امام، آصف اقبال تنہا  اور صفورہ زرگر سمیت ۱۱؍  ملزمین کو جامعہ میں ہونے والے تشدد  کے کیس سے ڈسچارج کردیا یعنی ان پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر ہی انہیں کیس سے بری کردیا گیا۔ لیکن اس فیصلے میں ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے پولیس کے کیس کی اور اس کی تفتیش کی جس طرح سے دھجیاں اڑائی ہیں وہ دہلی پولیس کو بہت دنوں تک یاد رہے گی۔ دسمبر۲۰۱۹ءمیں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشدد کے واقعات سے متعلق کیس میں  ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے یہ حکم سنایا ہے۔پولیس نے ان طلبہ لیڈران پرآئی پی سی کی مختلف سنگین دفعات کے تحت کیس درج کیا تھا لیکن سیشن جج نے پولیس کی کہانی پر یقین کرنے سے انکار کردیا بلکہ اپنے حکم نامہ میں پولیس کے بخیے ہی ادھیڑ دئیے ۔ 
 لائیو لاء پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق سیشن جج ارول کمار نےاپنے سخت تبصروں میں کہا کہ ہمیں پولیس کی بیان کردہ تھیوری پر بالکل بھی یقین نہیں ہے کیوں کہ ملزمین کے تعلق سے چارج شیٹ دیکھتے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں  بلَی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ چونکہ پولیس جامعہ تشدد کے اصل مجرمین کو پکڑنے میں ناکام رہی اس لئے انہو ں نے ان طلبہ لیڈران کو گرفتار کرکے انہیں ملزم بنادیا لیکن وہ اپنی تفتیش میں ایک بھی ثبوت نہیں پیش کرسکی۔  اس چارج شیٹ سے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تشدد میں شامل افراد کو پکڑنے کے بجائے پولیس نے وہاں موجود افراد میں سے چند کو پکڑا اور ملزم بنادیا اور چند کو اپنا گواہ قرار دے دیا۔ اس طرح سے  ملزمین کا ’انتخاب ‘ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔ اسی لئے ان سبھی کو کیس سے ڈسچارج کیا جارہا ہے۔ کورٹ نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ کسی جگہ اگر احتجاج ہو رہا ہو اور وہاں کوئی موجود ہو جسے بعد میں پولیس اسی بنیاد پر گرفتار کرلے تو یہ پولیس کی من مانی کہلائے گا۔ یہ کورٹ پولیس کی اس طرح کی من مانی کے سخت خلاف ہے ۔ 
 جج  ارول کمار نے یہ بھی وضاحت کی کہ جن افراد کو ڈسچارج کیا جارہا ہے وہ سبھی ملک کا مستقبل ہیں ، نوجو ان طلبہ ہیں انہیں اس طرح سے پھنسادینا اور پھر  ملک کے نہایت پیچیدہ اور طویل کریمینل جسٹس سسٹم  سے لڑنے کے لئے چھوڑدینا نہایت غلط ذہنیت کی عکاسی ہے۔  جج ارول کمار کے مطابق یہ طلبہ صرف اختلاف رائے رکھتے ہیں اور اس ملک میں اختلاف رائے رکھنا کوئی جرم نہیں ہے یہ بات تفتیشی ایجنسیاں اور پولیس اچھی طرح سے سمجھ لےبلکہ وہ یہ بات گانٹھ باندھ لیں کہ اختلاف رائے بنیادی حقوق کی ہی توسیع ہے اس لئے اس کی بنیاد پرکسی کے خلاف کارروائی کبھی جائز نہیں ہو سکتی۔  اس کے بعد جج ارول کمار نے شرجیل امام ، آصف اقبال تنہاؔ، صفورہ زرگر ، محمد ابوذر ، عمیر احمد،محمد شعیب ، محمود انور ،محمد قاسم ، محمد بلال،شہزور رضا خان اور چندا یادو کو کیس سے ڈسچارج کردیا لیکن ایک دیگر ملزم محمد الیاس کیخلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی۔  تاہم،  شرجیل امام  اب بھی جیل سے رہا نہیں ہو سکیں گے کیوں کہ ان پر  دہلی فسادات سے متعلق مقدمہ میں سماعت جاری ہے ۔انہیں اب تک ضمانت نہیں ملی ہے جبکہ آصف اقبال اور صفورہ زرگر ضمانت پر باہر ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK