• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیرا لیون: مبینہ بغاوت کے معاملے میں لیڈر کو ۲۰۰؍ سال قید کی سزا

Updated: July 23, 2024, 10:22 PM IST | Freetown

نومبر ۲۰۲۲ء کے ایک معاملے میں سیرا لیون کی ایک عدالت نے ۱۱؍ افراد کو غداری اور دیگر جرائم میں مجرم قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ ان پر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام تھا۔ اس گروپ کے لیڈر کو ۲۰۰؍ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

A court of Sierra Leone. Photo: Official website
سیرا لیون کی ایک عدالت۔ تصویر: سرکاری ویب سائٹ

سیرا لیون کی ایک عدالت نے ۱۱؍ افراد کو غداری اور دیگر جرائم میں مجرم قرار دیا ہے جس کے بعد حکام نے اسے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش قرار دیا۔ اس ضمن میں عدالتی ترجمان نے کہا کہ ان کے لیڈر کو ۲۰۰؍سال کیلئے قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ نومبر میں درجنوں بندوق بردار ملک کے اسلحہ خانہ اور قید میں داخل ہو گئے تھے جہاں ۲؍ ہزارسے زائد قیدیوں کی اکثریت کو رہا کیا گیا تھا۔ اس تصادم کے نتیجے میں سیکوریٹی فورس کے ۱۸؍افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: کھانسی سیرپ بنانے والے ۱۰۰؍ سے زائد یونٹس کوالیٹی ٹیسٹ میں ناکام: رپورٹ

اس وقت حکام نے کہا تھا کہ انہوں نے ۸۰؍ مشکوک افراد کو حراست میں لیا ہے اور جنوری میں درجنوں افراد پر فردجرم داخل کیا گیا تھاجن میں سابق صدر ارنیسٹ بائی کو رومابھی شامل ہیں جنہیں بعد میں طبی چھٹی دی گئی تھی۔ عدالتی ترجمان لمین کمارا نے اسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ وہ شخص ، جن پر اس حملے کی قیادت کرنے کا الزام ہے، کو پیر کو عدالت نے بغاوت ، قتل اور قتل کی کوشش میں شوٹنگ کے الزامات پر ۱۸۲ ؍ سال کیلئے جیل کی سزاسنائی ہے۔ ماکولو، کوروما کے سابق سیکوریٹی گارڈ تھےاور سوشل میڈیا پر موجودہ صدر جولیس مادا بائیو کے خلاف اہم تنقیدی رہ چکے ہیں۔ دیگر ۱۰؍ افراد کو بھی بغاوت او ر قتل کا مجرم قرار دیا گیا ہے اور یہ افراد بھی ۳۰؍ تا ۱۱۲؍سال جیل کی سزا کاٹیں گے۔ اگر چہ کوروما سرکاری طور پر سیاست سے سبکدوش  ہو چکے ہیں پھر بھی وہ اپنی پارٹی کے متاثر کن شخصیت ہیں۔ اس ضمن میں انفارمیشن منسٹر چرنور باہ نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ’’حملےکے تعلق سے حراست میں لئے گئے زیادہ تر افراد سابق صدر کے سابق شریک کار ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK