• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

۶؍ طالبات نے کالج چھوڑ دیا، ۳؍ مسلم اسٹوڈنٹ لیکچر سے غیر حاضر

Updated: July 26, 2024, 10:11 PM IST | Dipti Singh | Mumbai

چمبور میں واقع این جی آچاریہ اور ڈی کے مراٹھے کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس میں برقع، حجاب اور نقاب پر پابندی عائد کرنے کےفیصلہ کو ہائی کورٹ کی حمایت ملنے کے بعد اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے والی ۹؍ میں سے ۶؍ طالبات نے متذکرہ کالج چھوڑ دیا ہے۔

Police personnel were deployed outside the college after the dispute last year. Photo: INN
گزشتہ سال تنازع کے بعد کالج کے باہر پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ تصویر : آئی این این

چمبور میں واقع این جی آچاریہ اور ڈی کے مراٹھے کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس میں برقع، حجاب اور نقاب پر پابندی عائدکرنے کے فیصلہ کو ہائی کورٹ کی حمایت ملنے کے بعد اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے والی ۹؍ میں سے ۶؍ طالبات نے متذکرہ کالج چھوڑ دیا ہے اور ان میں سے چند نے دیگر کسی کالج میں داخلہ بھی نہیں لیا ہے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کا شدید نقصان ہورہا ہے۔
جن۳؍ طالبات نے کالج نہیں چھوڑا ہے وہ بھی پردہ کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے لیکچر میں شریک نہیں ہورہی ہیں۔ کالج کے حجاب پر پابندی کے فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کرنے والی طالبات میں کامرس کی تیسرے سال کی ۱۹؍ سالہ طالبہ بھی شامل تھی جس نے تعلیم پر پردہ کو ترجیح دیتے ہوئے پڑھائی چھوڑدی ہے۔ اس طالبہ نے کہا کہ ’’ہماری لڑائی صرف اتنی تھی کہ کالج انتظامیہ ہمیں برقع یا حجاب پہن کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دے۔ چونکہ اب عدالت کا فیصلہ کالج کی کپڑوں کے تعلق سے بنائی گئی پالیسی کے حق میں آگیا ہے تو ہمارے لئے ساری امیدیں ختم ہوگئی ہیں۔ اگر کل کو دیگر کالج بھی ایسا ہی کرنے لگے تو ہم کہاں جائیں گی؟ برقع ہماری زندگی کا حصہ ہے اور کالج کے احاطے میں اس پر پابندی عائد کرکے ہماری مذہبی آزادی پر حملہ کیا گیا ہے۔‘‘
 اس طالبہ نے یہ بھی کہا کہ ’’اب تک میں نے کسی دیگر کالج میں داخلہ نہیں لیا ہے اور یہ میرا بہت بڑا نقصان ہوگا کیونکہ اس سے میرے تعلیمی سال کا خلاء رہ جائے گا۔ اگر برقع پر پابندی کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا تو اس سال میں پُرامن طریقے سے اپنا گریجویشن مکمل کرلیتی۔ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ ایک تعلیمی ادارہ کپڑوں کے تعلق سے بے جا پالیسی عائد کرکے ہمیں تعلیم سے محروم کررہا ہے۔ دیگر طلبہ بھی جانتے ہیں کہ کالج غلطی پر ہے لیکن منفی رد عمل کے خوف سے کوئی اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
ایک دیگر طالبہ نے کہا کہ ’’مجھے ایک دیگر کالج میں داخلہ مل گیا ہے لیکن اب یہ معاملہ ہمارے ذہن میں گھر کرگیا ہے اور اب ہمیشہ یہ خوف ہمارے ذہن میں رہے گا کہ ہم جس کالج میں بھی جائیں گے وہاں حجاب پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ ہم برقع پہنتے ہیں جو ایک مذہبی عمل ہے، ہم نے برقع اور حجاب پہننے کو خود پسند کیا ہے اور اسے پہننا چھوڑ دینا بہت مشکل کام ہے۔ ہمیں امید تھی کہ ہم اس ناانصافی کے خلاف لڑائی جیت جائیں گے اور دوبارہ کالج جاسکیں گے۔ یہ کالج ہمارے گھر سے قریب تھا لیکن کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔ عدالت کو گمراہ کیا گیا کہ پابندی سب پر عائد کی گئی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK