۱۷۶؍ پارلیمانی حلقوں میں مشینوں میںمحفوظ کئے گئے ووٹوں کے مقابلے زیادہ ووٹ نکلے جبکہ ۳۶۲؍ حلقوں میں ۵؍ لاکھ ۵۴؍ ہزار ووٹ کم گنے گئے، آسام کے کریم گنج پارلیمانی حلقے میں ۳؍ ہزار سے زائد اضافی ووٹ ملنے پر کانگریس نے شکایت درج کرائی، جانچ کا حکم، الیکشن کمیشن کی جانب سے خاموشی پر سوالیہ نشان۔
موجودہ الیکشن میں مسلم ووٹروں نے زبردست جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ تصویر: پی ٹی آئی
الیکشن کمیشن کے ذریعہ فراہم کردہ لوک سبھا الیکشن ۲۰۲۴ء کے اعدادوشمار کے تجزیہ سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔۵۴۲؍ پارلیمانی حلقوں میں سے کم از کم ۵۳۸؍ سیٹیں ایسی ہیں جن میں ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹوں اور شمار کئے گئے ووٹوں میں فرق ہے۔’دی کوئنٹ‘ نےمذکورہ اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے بعد انکشاف کیاہے کہ ۳۶۲؍ پارلیمانی حلقوں میں الیکشن کمیشن نے ووٹنگ مشینوں میں محفوظ کئے گئے ۵؍ لاکھ ۵۴؍ ہزار ۵۹۸؍ ووٹ ’’ضائع‘‘ کردیئے یعنی ان کی گنتی نہیں کی۔ اسی طرح ۱۷۶؍ پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں کی مشینوں میں مجموعی طورپر۳۵؍ ہزار ۹۳؍ اضافی ووٹ ملے جو شمار بھی کئے گئے۔ یہ فرق کہیں ۲؍ ووٹ کا ہے تو کہیں ۳؍ ہزار ۸۱۱؍ ووٹوں کا ہے۔
ممبئی نارتھ ویسٹ میں بھی اضافی ووٹ
جن پارلیمانی حلقوں کی مشینوں میں زیادہ ووٹ نکلے ہیں ان میں ممبئی نارتھ ویسٹ بھی شامل ہے۔ یہ سیٹ بی جےپی نے ۴۸؍ ووٹوں کے انتہائی معمولی فرق سے جیت لی ہے۔ ’دی وائر‘ نے جائزہ لیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس حلقے میں پولنگ کے دن ووٹنگ مشینوں میں کُل۹؍ لاکھ ۵۱؍ ہزار ۵۸۰؍ ووٹ محفوظ ہوئے مگر جب ۴؍ جون کو۹؍ لاکھ ۵۱؍ ہزار ۵۸۲؍ ووٹ شمار کئےگئے۔ یعنی ۲؍ ووٹ زیادہ ۔اسی طرح راجستھان کےجے پور دیہی پارلیمانی حلقے میں ای وی ایم میں ۱۲؍ لاکھ ۳۸؍ ہزار ۸۱۸؍ ووٹ پڑے مگر گنتی ۱۲؍ لاکھ ۳۷؍ ہزار ۹۶۶؍ ووٹوں کی ہی ہوئی۔ یعنی ۸۵۲؍ ووٹ کم شمارکئے گئے۔ یہ سیٹ بھی بی جےپی نے ایک ہزار ۶۱۵؍ ووٹوں کے معمولی فرق سےجیت لی۔
راجستھان کے کانکیر پارلیمانی حلقے میں ۱۲؍ لاکھ ۶۱؍ ہزار ۱۰۳؍ ووٹ پڑے مگر گنتی۱۲؍ لاکھ ۶۰؍ ہزار ۱۵۳؍ ووٹوں کی ہی ہوئی۔۹۵۰؍ ووٹ کم شمار نہیں کئے گئے۔ یہ سیٹ بھی بی جےپی نے ایک ہزار ۸۸۴؍ ووٹوں سے جیت لی۔ چوتھی مثال فرخ آباد(یوپی) کی ہے۔ یہاں ۱۰؍ لاکھ ۳۲؍ ہزار ۲۴۴؍ ووٹ پڑے اور ۱۰؍ لاکھ ۳۱؍ ہزار ۷۸۴؍ووٹ شمار کئے گئے۔ یعنی ۴۶۰؍ ووٹ کم شمار کئے گئے۔ یہ سیٹ بی جےپی نے ۲؍ ہزار ۶۷۸ ؍ ووٹوں سے جیت لی۔
۲۶۷؍ سیٹوں پر ۵۰۰؍ سے زائد کا فرق
مجموعی طور پر ۲۶۷؍ پارلیمانی حلقوں میں مشینوں میں محفوظ ہونے اوران سے نکلنے والے ووٹوں میں۵۰۰؍ سے زائد کا ہے، کہیں ووٹ زیادہ ہیں کہیں کم۔ ’دی کوئنٹ‘ نے الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار کی بنیاد پر نشاندہی کی ہے کہ تمل ناڈو کے تیرووَلّور پارلیمانی حلقے میں جہاں ۱۹؍ اپریل کو پہلے مرحلے میں پولنگ ہوئی، ۲۵؍ مئی کے الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق ۱۴؍ لاکھ ۳۰؍ ہزار ۷۳۸؍ ووٹ ڈالے گئے مگر ۴؍ جون کو جب گنتی ہوئی تو ۱۴؍ لاکھ ۱۳؍ ہزار ۹۴۷؍ ووٹ شمار کئے گئے۔ یعنی ۱۶؍ ہزار ۷۹۱؍ ووٹوں کی گنتی نہیں ہوئی۔
کریم گنج میں کانگریس کی شکایت پر جانچ
اسی طرح آسام کے کریم گنج میں دوسرے مرحلے میں ۲۶؍ اپریل کو پولنگ ہوئی۔ یہاں الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۱؍ لاکھ ۳۶؍ ہزار ۵۳۸؍ ووٹ ڈالے گئے مگر ۴؍ جون کو ۱۱؍ لاکھ ۴۰؍ ہزار ۳۴۹؍ ووٹ شمار کئے گئے۔ یعنی ۳؍ ہزار ۸۱۱؍ ووٹ زیادہ شمار ہوئے۔ یہاں کانگریس کے امیدوار حافظ رشید احمد چودھری بی جےپی کے امیدوار کرپاناتھ ملاح سے ۱۸؍ ہزار ۳۶۰؍ ووٹوں سے ہار گئے۔ مشینوں میں ڈالے اور۴؍ جون کو شمار کئے گئے ووٹوں کے فرق سے متعلق کانگریس کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ آفیسر کو جانچ کا حکم دے دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی خاموشی پر سوال
اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی خاموشی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس کے معاون بانی جگدیپ چھوکر کے مطابق الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ پارلیمانی حلقے کی سطح پر یہ بتائے کہ یہ فرق کیوں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک الیکشن کمیشن نے محض عمومی وجہ بیان کی ہے وہ بھی ’ایکس پوسٹ‘ کے ذریعہ۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے فارم ۱۷؍ سی کو عام کیا جانا ضروری ہے۔