• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جنوبی کوریا: مارشل لاء کیخلاف عوام سڑکوں پر اُترے ، حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے

Updated: December 05, 2024, 1:15 PM IST | Seoul

صدر یون کی جانب سے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی اراکین پارلیمنٹ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ایوان پہنچے اور مارشل لا کے خلاف قرار داد منظور کی اور اسےکالعدم کروایا، اس دوران پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرکے عوام نے پولیس اورفوج کو اندر جانے سے روکا۔ ملک بھر میں ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کیسامنے مظاہرین سینہ سپر ہوئے۔

As martial law was declared on Tuesday night, thousands of South Korean citizens gathered outside the parliament and protested for hours with candles in their hands. Photo: INN
منگل کی شب جیسے ہی مارشل لاء کا اعلان ہوا، ہزاروں جنوبی کوریائی شہری پارلیمنٹ کے باہرآپہنچے اور اپنے ہاتھوں میں شمع اٹھاکر یوں گھنٹوں احتجاج کیا۔ تصویر: آئی این این

جنوبی کوریا میں سیاسی بحران کے سبب منگل کی رات یون سک یول حکومت کی جانب سے ہنگامی طور پر مارشل لاء  نافذ کردیا گیا ۔جس کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مزاحمت دیکھی گئی اور اراکین پارلیمان نے مارشل لاء کی تجویزکو اکثریتی ووٹوں  سے مسترد کردیا۔اس باعث یون سک حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ۶؍گھنٹے کے اندر ہی اسےمارشل لاء فیصلے کو منسوخ کرنا پڑا۔ مارشل لا ہٹانے کا اعلان ہوتے ہی فوج کی بیرکوں میں واپسی شروع ہو گئی۔خبر ایجنسی کے مطابق صدر کے مارشل لا اٹھانے کے اعلان کے بعد جنوبی کوریا میں اپوزیشن کی جانب سے جشن منایا جا رہا ہے۔
مارشل لاء کےنفاذ پر عوام بھڑک گئے
جیسے ہی  صدر نے ٹیلی ویژن خطاب میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کیا،اس کے فوراً  بعد عوام  سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد پولیس نے جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے داخلی  راستے بند کردئیے اور اراکین کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روک دیا تاہم اراکین  پولیس سے چھڑپوں کے بعد پولیس حصار کو توڑتے ہوئے پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے۔اراکین  کے پارلیمنٹ میں داخل ہونے اور پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے کے بعد فوج کے  خصوصی دستے بھی ایوان خالی کروانے کے لئے پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: بالآخر فرنویس کو وزارت اعلیٰ مل گئی، آج حلف برداری

پارلیمانی قرارداد پر برسراقتدارا ور اپوزیشن متحد نظر آئے
ملک میں ’ایمرجنسی مارشل لا‘ نافذ کرنے کے تقریباً ۶؍ گھنٹے بعد صدر یون سک یول نے بدھ کو اس التزام کو ہٹانے کا اعلان کیا۔اسے ختم کرنے کیلئے متفقہ طور پر منظور  پارلیمانی قرارداد کی تعمیل کی۔اس قرارداد کے خلاف ووٹنگ کیلئے پارلیمنٹ کے ۳۰۰؍ اراکین میں سے۱۹۰؍ موجود تھے اور موجود تمام ۱۹۰؍ اراکین پارلیمنٹ نے مارشل لاء اٹھانے کے مطالبے کی تحریک کے حق میں ووٹ دیا۔ جس کے بعد مارشل لاءرد کردیا گیا۔
یون حکومت نے یہ قدم کیوں اٹھایا تھا؟
یون ہاپ کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے پارلیمانی بجٹ کمیٹی میں چھوٹے بجٹ کا بل منظور کرنے اور ریاست کے ایک آڈیٹر اور چیف پراسیکیوٹر کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کے بعد کیا گیا۔   واضح رہے کہ  یول کی کابینہ نے منگل کی رات دیر  مارشل لا لگانے کے اپنے فیصلے کو منظوری دے دی تھی اور بدھ کو جنوبی کوریا کے وقت کے مطابق صبح۳۰:۴؍بجے اسے نافذ کرنے کی تجویز کو منظوری دی۔ صدر نے منگل کی رات تقریباً۱۱؍ بجے اپنے خطاب میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔  یول نے اپنے خطاب میں ملک کی اپوزیشن پر ’ملک مخالف‘ سرگرمیوں کے ذریعے حکومت کو ’مفلوج‘ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم، جب انہوں نے مارشل لاء واپس لے لیا تو صدر نے کہا کہ انہوں نے ملک دشمن قوتوں کی جانب سے قوم کے ضروری کاموں کو مفلوج کرنے کی کوششوں کے مقابلے میں قوم کا دفاع کرنے کے اپنے پختہ ارادے سے مارشل لا لگایا تھا۔
مزدور یونین نے بھی شدید مخالفت کی 
 جنوبی کوریا کی اپوزیشن نے صدر سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے حکمران جماعت کے ملوث تمام افراد کے احتساب پر زور دیا۔ دوسری  جانب  جنوبی کوریا کی سب سے بڑی مزدور یونین نے بھی صدر  سے استعفیٰ کا  مطالبہ کرتے ہوئے کے مستعفی نہ ہونے تک ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔  
جنوبی کوریا ئی صدر کے خلاف تحریک مواخذہ
جنوبی کوریا کے قانون سازوں نے ناکام مارشل لاء کے  بعد صدر یون سک یول کے خلاف مواخذےکی تحریک جمع کرا دی۔ غیر ملکی میڈیا  کے مطابق سیاسی دباؤ کے باعث جنوبی کوریا کے صدر  یون سک یول نے بدھ کے روز  علی الصبح ملک میں نافذ مارشل لاء اٹھا لیا جس کے بعد فوج کی بیرکوں میں  واپسی ہوگئی ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ فوج نے پارلیمنٹ کو گھیر لیا تھا جس پر پارلیمنٹ نے مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔مارشل  لاء لگانے کے بعد پارلیمنٹ  تیزی سے حرکت میں آئی، قومی اسمبلی کے  اسپیکر  وون شیک نے اعلان کیا کہ یہ قانون `غلط ہے اور قانون ساز عوام کیساتھ جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔
 اپوزیشن نے سخت اعتراض کیا
صدر یون سک یول کے مذکورہ متنازع فیصلے کے خلاف  حکمران پیپلز پاور پارٹی اور اپوزیشن دونوں نے سخت اعتراض کیا اور اسے آمرانہ اقدام بتایا۔ پیپلز پاور پارٹی کے سربراہ ہان ڈونگ ہون نے صدر کے مارشل لا کے اعلان کو ’غلط‘ قرار دیا جبکہ حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی نے اس اعلان کو ’غیر آئینی، عوام دشمن‘ قرار دیا۔
 اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے صدر یون سک  یول کے اقدام کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ صدر کا اقدام ملک سے  غداری ہے، مارشل لاء کا فیصلہ واپس لینے کے بعد انہیں عہدے سے استعفیٰ دینا  پڑے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا کی اپوزیشن جماعتوں نے صدریون سک یول کیخلاف مواخذے کی تحریک جمع کرادی ہےاور مواخذے کی تحریک پر جمعہ تک ووٹنگ متوقع ہے۔ جنوبی کوریا  کے صدر یون سک یول نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ اپوزیشن کی ریاست مخالف  سرگرمیوں کے باعث مارشل لاء نافذ کیا، شمالی کوریا کی طرف جھکاؤ رکھنے والی  اپوزیشن پارلیمنٹ پر قابض تھی۔

 صدریون  شمالی کوریا کو تنازع پر اکسا سکتے ہیں: اپوزیشن

 جنوبی کوریا میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر  لی جے میونگ نے بدھ کو کہا کہ مارشل لا نافذ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول شمالی کوریا کو اکسا سکتے ہیں اور سرحد پرکشیدگی کی صورتحال کو فوجی جھڑپوں تک بڑھا سکتے ہیں۔  لی نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے منعقدہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صدر یول نے مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش کی اور وہ دوبارہ کوشش کریں گے، لیکن اب اس سے بھی بڑا خطرہ ہے۔وہ جنگ بندی لائن کے استحکام میں خلل ڈال کر اور اس صورتحال کو مسلح تصادم میں بدل کر شمالی کوریا کو بھڑکا سکتے ہیں۔ اگر مارشل لاء اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے کافی نہیں ہوا، تو وہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں گے۔‘‘

ہم جنوبی کوریا کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں:جاپانی وزیراعظم

 جاپان کے وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے بدھ کو کہا کہ وہ جنوبی کوریا میں پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جہاں راتوں رات مارشل لاء لگاکر  ہٹا دیا گیا ۔ ’کیودا ‘ نے  ایشیبا کے حوالے سے بتایا کہ ’’ہم جنوبی کوریا کی صورتحال کو قریب سے اور خصوصی توجہ کیساتھ مانیٹر کر رہے ہیں۔‘‘ سرکاری ذرائع نے  بتایا کہ تازہ صورتحال جنوری میں وزیر اعظم ایشیبا کے جنوبی کوریا کے طے شدہ دورے پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ جبکہ ایشیبا نے کہا کہ اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ افسران نے  بتایا کہ یہ دورہ صورتحال کے لحاظ سے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہو سکتا ہے یا نہیں بھی  ہو سکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK