بائیں بازو کی پارٹی کےلیڈر کو سب سے زیادہ ۴۰؍ فیصد ووٹ ملے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دوسری ترجیح کیلئے ووٹوں کی گنتی کی جائے گی جس سے نئے صدر کا فیصلہ ہوگا۔
EPAPER
Updated: September 23, 2024, 10:16 AM IST | Colombo
بائیں بازو کی پارٹی کےلیڈر کو سب سے زیادہ ۴۰؍ فیصد ووٹ ملے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دوسری ترجیح کیلئے ووٹوں کی گنتی کی جائے گی جس سے نئے صدر کا فیصلہ ہوگا۔
سری لنکا کے الیکشن حکام نے اتوار کو دوسری ترجیحی گنتی کرانے کا فیصلہ کیا ہےکیونکہ سنیچر کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں جیت کیلئے کسی بھی امیدوار کو۵۰؍ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے ہیں۔
سری لنکا کے میڈیا آؤٹ لیٹ `’ڈیلی مرر‘ کی خبر کے مطابق الیکشن کمیشن کے چیئرمین آر ایل اے ایم رتنائکے نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ صدارتی انتخابات ایکٹ ۱۹۸۱ء کے مطابق ہے۔ سری لنکا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ صدر کے انتخاب کیلئے ترجیحی ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے۔ ۱۹۸۲ء سے اب تک کے تمام ۹؍ صدارتی انتخابات میں فاتح کا فیصلہ پہلی ترجیحی ووٹوں کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
گنتی کے رجحانات کے مطابق بائیں بازو کے جنتا ویمکتی پیرامونا (جے وی پی) کےلیڈرانورا کمارا دسانائیکے جو نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) اتحاد کی نمائندگی کر رہے ہیں، ۴۰؍ فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ آگے ہیں۔
ملک کے اپوزیشن لیڈر اور سماگی جنا بالاویگیا (ایس جے بی) پارٹی کے امیدوار ساجیت پریم داسا۳۳؍ فیصد سے زیادہ ووٹروں کی حمایت کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
نیوز پورٹل `’اکانومی نیکسٹ‘ کے مطابق رتنائکے نے کہاکہ ’’دسانائیکے سب سے اوپر ہیں اور پریما داسا کو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ہم دوسرے تمام امیدواروں کو مقابلے سے نکال دیں گے اور دیگر امیدواروں کے مقابلے میں ان ۲؍ امیدواروں کیلئے دوسری اور تیسری ترجیحی ووٹ شمار کریں گے۔ ‘‘موجودہ صدر رانل وکرما سنگھے جو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں تھے، تیسرے نمبر پر ہیں جنہیں مینڈیٹ کا تقریباً۱۷ء۵؍ فیصد ملا ہے۔ سابق صدر مہندا راجا پکشے کے بیٹے نماک راجا پکشے کو صرف ۲ء۴؍ فیصد ووٹ ملے ہیں ۔ اس طرح وہ چوتھے نمبر پر ہیں۔
واضح رہے کہ سری لنکا میں سنیچر کو صدارت کیلئے ووٹنگ ہوئی اور رات کے کرفیو کے درمیان گنتی شروع ہوئی۔ ابتدائی رجحانات کے مطابق دسانائیکے اپنی شاندار کارکردگی کے ساتھ اتوار کو سری لنکا کے نویں قائم مقام صدر بننے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں۔
امن و قانون کی کسی بھی خلاف ورزی کو روکنے کیلئے کرفیو کو اتوار کی دوپہر۱۲؍ بجے تک بڑھا دیا گیا تھا۔ پولیس نے انتخابی نتائج کے بعد ایک ہفتے کیلئے تمام عوامی جلوسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سری لنکا کے ووٹرس ۳؍ امیدواروں میں سے ترجیح کے لحاظ سے فاتح کا انتخاب کرتے ہیں۔