محکمہ تعلیم نے اسکولوں میں پہلی جماعت سے ہندی کو لازمی کرنے کافرمان جاری کیا، ایم این ایس کا فیصلہ واپس نہ لینے پر احتجاج کااعلان، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمیں ہندی بھی سیکھنی چاہئے
EPAPER
Updated: April 18, 2025, 11:16 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
محکمہ تعلیم نے اسکولوں میں پہلی جماعت سے ہندی کو لازمی کرنے کافرمان جاری کیا، ایم این ایس کا فیصلہ واپس نہ لینے پر احتجاج کااعلان، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمیں ہندی بھی سیکھنی چاہئے
ریاستی محکمہ تعلیم نےنیوایجوکیشن پالیسی کے مطابق مراٹھی اور انگریزی میڈیم کے اسکولوںمیں اوّل تا پنجم جماعت میں مراٹھی اور انگریزی کے ساتھ ہندی کوتیسری لازمی زبان کےطورپر پڑھانے کی ہدایت جاری کی ہے۔ یہ پالیسی جون میں شروع ہونے والے تعلیمی سال سے نافذ کی جائے گی، لیکن اس فیصلہ کی وجہ سے ایک تنازع پیدا ہوگیاہے۔ شیوسینا ( اُدھو گروپ)، کانگریس ، این سی پی اور ایم این ایس نے اس کی مخالفت کی ہےجبکہ ایجوکیشن ڈائریکٹرکے مطابق اس میں کوئی سیاسی معاملہ یا مراٹھی کادرجہ کم کرنے کا مقصد کارفرما نہیں ہے۔
مذکورہ پارٹیوں نے ریاست میں پہلی جماعت سے ہندی مضمون کو لازمی کرنے کے مہایوتی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ ایم این ایس کے صدر راج ٹھاکرے نے اس کے خلاف سخت احتجاج کاانتباہ دیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مراٹھی کی قربانی دےکر ہندی کوہم پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمراں اتحاد میں شامل این سی پی کے اجیت پوار گروپ نے بھی اس فیصلے پر بے چینی کااظہار کیا ہےلیکن بی جے پی اور شیو سینا شندے گروپ نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے نےا س معاملہ میں سخت موقف اختیار کرتےہوئے کہاہےکہ ’’مرکز کی نیو ایجوکیشن پالیسی کے مطابق حکومت نے ریاست میں پہلی جماعت سے ہندی کو بطور مضمون شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہےجس کی ہم سخت مخالفت کرتےہیں۔دراصل آنے والے بلدیاتی انتخابات میں مراٹھی اور غیر مراٹھی کے درمیان ٹکراؤ پیدا کر کےحکومت اپنے فائدے کیلئے اس طرح کے اقداما ت کررہی ہے۔ایم این ایس اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی۔‘‘راج ٹھاکرے نے واضح طور پر خبردار کیا کہ اسکولی نصاب کی ہندی کتابوں کو دکانوں میں فروخت کرنے اور اسکولوں کو ان کتابوں کو طلبہ میں تقسیم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر حکومت نےیہ فیصلہ واپس نہیں لیاتو ہم اس کےخلاف سخت احتجاج کریں گے۔انہوںنے یہ بھی کہاکہ ’’ہم مرکزی حکومت کی ریاست میں ہرجگہ ہندی کو پھیلانے کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ہندی قومی زبان نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں پہلی جماعت سےہندی میں پڑھانے کی کیاضرورت ہے۔ آپ اپنے سہ لسانی فارمولے کو حکومتی معاملات تک محدود رکھیں، اسے تعلیم تک نہ لائیں۔‘‘
کانگریس پارٹی کےگروپ لیڈر وجے وڈیٹیوارنے اس بارےمیں کہاہےکہ ’’یونین کےقیام کے وقت ریاستوں کی مادری زبان کو ترجیحی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ مہاراشٹر کی مادری زبان مراٹھی ہے۔مراٹھی کے ساتھ انگریزی ،یہ دو زبانیں ہیںجو تعلیم اور انتظامیہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ہندی کو تیسری زبان کے طور پر زبردستی مسلط کرنا مراٹھی کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ مراٹھی بولنے والوں کی شناخت پر حملہ ہے۔‘‘
شیوسینا (ادھوٹھاکرےگروپ) کے رکن پارلیمان سنجے رائوت نے کہاکہ’’ پہلی جماعت سے ہندی کو لازمی کرنے سے پہلے تمام شعبوں میں مراٹھی کو لازمی کیا جائے۔ دوسری زبانوں کے اسکولوں میں مراٹھی کی قیمت پر ہندی کو لازمی نہ کریں۔ مراٹھی کو صرف اعلیٰ درجہ دینے سے مراٹھی کا بھلا نہیں ہوگا۔ ہم نےکبھی ہندی کی مخالفت نہیں کی لیکن یہ زبان اختیاری ہونی چاہئے۔‘‘این سی پی ( شرد پوار گروپ ) کے رکن اسمبلی جتیندر اوہاڑ کے بقول’’ پہلی سے ہندی کو لازمی کرنادائیں محاذ اور ایک مخصوص تنظیم کی سازش ہے۔ ہندی کو لازمی کر کے مراٹھی زبان کو ختم کرنے کی چال ہے۔ ‘‘
این سی پی (اجیت پوارگروپ) کے ترجمان سورج چوان کےمطابق ’’ ہندی پانچویں جماعت سے پڑھائی جاتی ہے تو پہلی جماعت سےاسے لازمی کرنے کاکیاجوازہے؟ طلبہ اوروالدین کو اس بات کا اختیا ر ہوناچاہئے کہ انہیں تیسری زبان کے طورپر کونسی زبان سیکھنی ہے۔ ہندی لازمی نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
دریں اثنا ء اس ضمن میں ریاستی وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے کہاہےکہ ’’ ہم نے پہلے ہی نئی تعلیمی پالیسی نافذ کر دی ہے۔ اس میں کوئی نئی تبدیلی یا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ مہاراشٹر میں سبھی کو مراٹھی زبان جاننی چاہئےساتھ ہی ہندی ملک میں رابطہ کی ایک اہم زبان ہے، اس لئے ہندی زبان بھی سیکھنی چاہئے۔‘‘
اسٹیٹ کونسل آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ٹریننگ کے ڈائریکٹر راہل دیکھاور نے اس بارےمیں کہاہےکہ ’’ہندی کو لازمی مضمون بنانے میں کوئی سیاست نہیں ہے، نہ مراٹھی کو ثانوی درجہ دینے کا کوئی ارادہ ہے، نہ ہندی کو معیاری بنانے کا کوئی ارادہ ہے۔ ہندی کو کلاس اوّل سے صرف طلبہ کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے لازمی کیا گیا ہے۔‘‘