اس عمل کا مقصد سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔امریکہ میں یہ عمل ، پہلی عالمی جنگ کے وقت سے جاری ہے۔
EPAPER
Updated: March 11, 2025, 12:50 PM IST | Agency | Washington
اس عمل کا مقصد سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔امریکہ میں یہ عمل ، پہلی عالمی جنگ کے وقت سے جاری ہے۔
امریکہ میں موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی ایک بار پھر گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں۔بیشتر امریکی ریاستوں میں یہ تبدیلی۸؍اور ۹؍مارچ کی درمیانی شب سے نافذالعمل ہوگئی ہے۔ ’ڈے لائٹ سیونگ‘ کانسپٹ کے تحت ہر سال مارچ کے آغاز میں امریکہ کی کئی ریاستوں میں گھڑی کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے اور نومبر میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی ہیں۔ ’وی او اے‘ کی رپورٹ کے مطابق مارچ میں گھڑی کی سوئیاں آگے کرنا موسم گرما کی آمد کا پیغام ہوتا ہے جس کا مقصد سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ اسی طرح نومبر میں گھڑی کی سوئیاں پیچھے کرنا موسمِ سرما کی آمد کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی ریاست ہوائی اور ایریزونا کے بیشتر علاقوں کو چھوڑ کر امریکہ بھر میں ہر سال دو مرتبہ گھڑیوں کی سوئیوں کی یہ مشق ہوتی ہے۔ البتہ امریکہ کے زیرِ انتظام علاقوں پورٹو ریکو اور ورجن آئی لینڈ میں گھڑی ہر سال ایک ہی وقت کے مطابق چلتی ہے۔
گھڑی کو ایک گھنٹہ آگے اور ایک گھنٹہ پیچھے کرنے کا مقصد کیا ہے؟
یہ بھی دلچسپ ہے کہ ڈے لائٹ سیونگ کیلئے گھڑیوں کو آگے پیچھے صرف امریکہ میں ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یورپ، کنیڈا کے بیشتر علاقوں سمیت آسٹریلیا کے کچھ حصوں میں بھی یہ عمل کیا جاتا ہے۔ البتہ روس اور ایشیا میں ایسا نہیں کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں ۲؍ دہائی قبل ۲۰۰۲ء میں توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے’ ڈے لائٹ سیونگ ‘ کو اپنایا گیا تھا لیکن وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔
ڈے لائٹ سیونگ کا خیال کہاں سے آیا؟
۱۸۹۵ء میں نیوزی لینڈ کے ماہرِ فلکیات جارج ہڈسن نے موسم گرما اور سرما کے آغاز پر سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے گھڑیوں کو آگے پیچھے کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔۱۹۰۰ءکے اوائل میں برطانوی ماہرِ تعمیرات ولیم ویلیٹ نے بھی اسی طرح کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم دونوں ماہرین کے اس خیال کو پزیرائی نہ مل سکی۔ تاہم جرمنی نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران ڈے لائٹ سیونگ کے تصور کو اپنایا تھا جس کے بعد امریکہ سمیت کئی دیگرممالک میں بھی یہ رائج ہونا شروع ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکہ نے ایک مرتبہ پھر ڈے لائٹ سیونگ پر عمل کیا اور اس مرتبہ اسے ملک بھر میں ’جنگ کا وقت‘ قرار دیا گیا۔
وقت کی تبدیلی پر امریکی کیا کہتے ہیں؟
’وی او اے‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے کئی علاقوں میں موسمِ سرما کے دوران صبح۹؍ بجے یا اس کے بعد تک سورج طلوع نہیں ہوتا، ایسے میں لوگوں کو اندھیرے میں ہی جاگنا پڑتا ہے تاکہ دفتر جا سکیں اور بچوں کو بھی اندھیرے میں ہی اسکول پہنچنا پڑتا ہے۔ بیشتر امریکی کہتے ہیں کہ وہ سارا سال ایک ہی وقت میں اپنے شب و روز گزارنا پسند کرتے ہیں۔ اے پی کے ایک سروے کے مطابق صرف۲۵؍ فی صد امریکی دن اور رات کا وقت گھٹانے کو پسند کرتے ہیں جب کہ۴۳؍ فی صد کہتے ہیں کہ وہ سارا سال ایک ہی وقت پسند کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق۳۲؍ فی صد امریکی چاہتے ہیں کہ پورے سال وہی وقت رہے جو موسمِ گرما میں ہوتا ہے یعنی ڈے لائٹ سیونگ ٹائم۔