• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

لوک سبھا انتخابات کی ۵؍ مثبت اور۵؍ منفی باتیں

Updated: June 12, 2024, 3:46 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

جمہوریت  اور آئین کو لاحق خطرات کے سائے میں لڑے گئے موجودہ لوک سبھا الیکشن میں عوام نے واضح طورپر  جمہوریت اور آئین کے تحفظ کیلئے ووٹ دیا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جمہوریت  اور آئین کو لاحق خطرات کے سائے میں لڑے گئے موجودہ لوک سبھا الیکشن میں عوام نے واضح طورپر  جمہوریت اور آئین کے تحفظ کیلئے ووٹ دیا۔ مودی آج(اتوار ۹؍ جون۲۰۲۴ءکو)  لگاتار تیسری بار وزیراعظم کے طور پر حلف تو لے رہے ہیں مگر وہ خود جانتے ہیں کہ وہ ہار چکے ہیں۔  ان کا چہرہ  اور ہاؤ بھاؤ ان کی شکست خوردگی کا اعلان کررہاہے۔ان کی بے اعتمادی صدر جمہوریہ سے ان کی ملاقات کے بعد اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب باہر آکر وہ یہ  اعلان کررہے تھےکہ صدر  نے انہیں’نامزد وزیراعظم‘ مقرر کردیا ہے اور حکومت سازی کی دعوت دی ہے ۔  ان کے چہرہ پر فاتحانہ بشاشت ہونی چاہئے تھی مگر  اس کی جگہ مایوسی ، ہلکا سا خوف  اور بہت سی بے اعتمادی تھی۔یہی وجہ ہے کہ وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پارہے تھے اور چند جملوں کی ادائیگی میں وہ کئی بار رُکے اور کئی بار ان کی زبان لڑکھڑائی۔ بہرحال ۲۰۲۴ء کا یہ پارلیمانی الیکشن کئی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
 عوام نے مطلق العنانی کے خلاف اور جمہوری قدروں کے تحفظ کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ الیکشن جہاں ہندوستانی تاریخ کے اہم موڑ کے طورپر یاد رکھا جائیگا وہیں وزیراعظم کی تقریروں، الیکشن کمیشن  کے طرز عمل اور اقلیتوں کی دانشمندانہ ووٹنگ کیلئے بھی  یاد رکھا جائے گا۔ زیر نظر کالموں میں الیکشن کے ۵؍ مثبت اور  ۵؍ منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے:  

 مسلم ووٹوں کو بے وقعت کرنے کی سیاست ہار گئی
 ۲۰۱۴ء کے بعد سے انتخابی سیاست میں مسلمانوں کو جس  طرح  حاشیہ پر پہنچایاگیاوہ کسی سے چھپا ہوا نہیں  ہے۔ مسلمانوں  کے خلاف نفرت پھیلا کر   انہیں شجر ممنوعہ بنا کر رکھ دیاگیا۔ان کے ووٹ بے معنی ہوگئے تھے۔ مسلمانوں  نے اس کو محسوس کیا اورانتخابی منظر نامہ میں  ۲۰۲۴ء میں  اپنی شاندار واپسی  درج کرائی۔  اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مسلمانو ں  نے اپنے ووٹوں کو انتشار سے بچا کر اور اپنا ووٹنگ فیصد بڑھا کر  اگر دانشمندانہ ووٹنگ  نہ کی ہوتی تو نتائج وہ نہ ہوتے جو آج ہیں۔ 
آئین کے تحفظ کے تئیں بیداری
 وزیراعظم  مودی کا مقصد یقیناً ۴۰۰؍ پار کا نعرہ دیکر  اپوزیشن کو نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کرکے آدھی جنگ   پہلے ہی جیت لینا تھامگر وہ چوک گئے۔ یہ داؤ نہ صرف  اُلٹا پڑ گیا بلکہ۴۰۰؍  پار کا جواز فراہم کرنے کیلئے ان کے کئی لیڈروں   نے آئین میں تبدیلی کیلئے اس کی ضرورت کی جو تاویلیں پیش کیں انہوں نے عوام کو آئین  کے تعلق سے  بیدار کردیا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا  یہ پہلا الیکشن بن گیا جو آئین کے تحفظ کے نام  پر لڑا گیا۔ یہ خوش آئند ہے کہ  اس سے عوام میں آئین کی اہمیت اور اس کے تحفظ کا احساس پیدا ہوا  جو یقیناً دیر تک قائم رہےگا۔ 
عوامی موضوعات کو مرکزیت
 یہ پارلیمانی الیکشن اس لحاظ سے بھی  اہمیت کا حامل ہے کہ اسے سیاستدانوں نے کم اور عوام نے زیادہ لڑا۔ اس بات کی بھر پور کوشش کی گئی کہ انتخابی مہم کا بیانیہ تبدیل کیا جائے،  اسے ہندو مسلمان  اور منگل سوتر سے  لے کر گائے بھینس تک لے  بھی جایاگیا مگر عوام نے مسترد کردیا۔ کانگریس کے انتخابی منشور نے عوامی مسائل کو مرکزیت دی اور کئی بار حکمراں محاذ کو بھی ان موضوعات پر آنے پر مجبور کیا۔ 
اپوزیشن کااتحاد
 ہندوستان کے شمال، جنوب اور مشرق و مغرب کی الگ الگ ریاستوں کی ۴۲؍ پارٹیوں کا ’انڈیا‘ کے بینر تلے ایک پلیٹ فارم پرآجانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔  اس اتحاد نے مختلف پارٹیوں کی حمایت میں بٹی ہوئی ملک کی اکثریت کیلئے متحد ہوکر ووٹ دینے کی راہ ہموار کی۔  حد تو یہ ہے کہ جہاں اعلانیہ اتحاد نہیں ہوا وہاں بھی ’اتحاد‘ موجود تھا جس نے اپنا اثر بھی دکھایا۔ 
حکومت کے سحر سے آزادی
 گزشتہ ۱۰؍ برسوں  میں حکمراں محاذ کی سب سے بڑی طاقت وہ  میڈیا  ہے جس نے جانبداری کی وجہ سے اپنی وقعت ہی کھودی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ  وزیراعظم  نے ۸۰؍ سے زائد انٹرویو دے ڈالے مگر عوامی نتائج پر وہ اثر نظر نہیں آیا جو مقصود تھا۔ حکومت اور میڈیا کے سحر سے عوام کی یہ آزادی   ملک میں  جمہوریت کے تحفظ کیلئے خوش آئند ہے ۔ 
حکمراں محاذ کی فرقہ واریت
 موجودہ الیکشن کی مہم میں حکمراں محاذ نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر اکثریتی طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔’ہم اور وہ‘ کا جوہ بیانیہ وضع کیاگیاتھا وہ نہ صرف شرمناک ہے بلکہ  ہندوستان کی تاریخ میں کبھی کسی حکومت کی جانب سے ایسا طرز عمل پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ افسوس کہ آئینی عہدوں پر فائز افراد نے بھی انتخابی فائدہ کیلئے اپنے عہدوں  کے وقار کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ موجودہ الیکشن کا یہ منفی پہلو ہمیشہ یاد رکھا جائےگا ۔  
 وزیراعظم کی سطحی گفتگو
 وزیراعظم کسی بھی ملک کا آئینی سربراہ ہوتا ہے۔اس سے بردباری کی توقع کی جاتی ہے مگر موجودہ لوک سبھا الیکشن کی انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رُخ کسی اور نے نہیں خود وزیراعظم مودی نے دیا۔۲۰۱۷ء کے یوپی اسمبلی الیکشن میں انہوں  نے جب شمشان اور قبرستان کو انتخابی موضوع بنایاتھا تو ایسا لگا کہ اس سے نیچے  اور کیا جائیں گے  مگر موجودہ پارلیمانی الیکشن میںمنگل سوتر سے بھینس تک  وزیراعظم  نے جس طرح کی باتیں کیں وہ کسی بھی  وزیراعظم کے شایان ِ شان قطعی نہیں ہیں۔اس کا نقصان ملک  کے ساتھ خود مودی کی شبیہ کو بھی عالمی سطح پر پہنچا ہے۔ 
الیکشن کمیشن کی جانبداری
 موجودہ الیکشن میں اگر واقعی کسی کی شکست ہوئی ہے تو وہ الیکشن کمیشن کی شکست ہوئی ہے۔اس کی غیر جانبداری اوراس کا وقار کم وبیش ختم ہوچکاہے۔ اس کے باوجود کہ نتائج میں انڈیا اتحاد نے خاطر خواہ سیٹیں  جیت لی ہیں، ملک کے لوک سبھا انتخابات کو غیر جانبدارانہ کہا جا سکتا ہے نہ شفاف۔ ایسا معلوم ہوا جیسے حکمراں محاذ  کے لیڈروں کو فرقہ واریت  کا سہارا لے کر الیکشن لڑنے کھلی چھوٹ فراہم کردی گئی تھی۔ 
لیول پلے اِنگ فیلڈ کا نہ ہونا
  کسی بھی جمہوری ملک میں  منصفانہ الیکشن کیلئے ضروری  ہے کہ تمام فریقین کو یکساں مواقع حاصل ہوں مگر انتخابی تاریخوں کے اعلان سے قبل ہی اپوزیشن     کو وسائل  سے محروم کرنے کی جوکوششیں شرو ع ہوگئی تھیں انہوں نے لیول پلے اِنگ فیلڈ کے تصور کو ہی ختم کردیا تھا۔  جو کثر باقی رہ گئی تھی وہ الیکشن کمیشن کے اس  رویے نے پوری کردی جسے کھلی جانبداری قرار دیاجارہاہے۔
 سورت، اندور اور بنارس
اب تک  رُکن اسمبلی یا رکن پارلیمان کی خریدوفروخت کا تصور تھا مگر موجودہ  لوک سبھا الیکشن  میں ’امیدوار‘ ہی’’ خریدلینے ‘‘کا ایک نیا نظریہ دیکھنے کو ملا جس کا مظاہرہ  پہلے سورت میں پھر اندور میں دیکھنے کو ملا۔ اسی طرح  گاندھی نگر میں امیت شاہ کے مقابلے امیدوارو ں کو بیٹھنے پر مجبور کرنے کے الزامات سامنے آئے جبکہ بنارس میں مودی کے مقابلہ کیلئے نامزدگیاں ہی نہ ہونے دینے کا الزام لگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK