Inquilab Logo Happiest Places to Work

عمر قید کے مجرمین کی مستقل معافی، سپریم کورٹ بی جے پر حکومت پر برہم

Updated: April 23, 2025, 2:43 PM IST | Agency | New Delhi

سپریم کورٹ کی بی جے پی حکومت پر سخت برہمی، کہا: عمر قید کے مجرمین کی مستقل معافی کی درخواستوں کو غلط طریقے سے نمٹایا جارہا ہے، افسوس کا اظہار کرتے ہوئے توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا انتباہ دیا۔

Even the Supreme Court`s directives are not making governments accountable. Photo: INN
سپریم کورٹ کی ہدایتیں بھی حکومتوں کو جوابدہ نہیں بنا پارہی ہیں۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے دہلی حکومت پر اس کی طرف سے عمر قید کے مجرمین کی مستقل معافی کی درخواستوں کو غلط طریقے سے نمٹانے پر منگل کو سخت تنقید کی اور اس صورتحال کو’افسوسناک ‘قرار دیا۔ جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجل بھویاں پر مشتمل بنچ نے تبصرہ کیا کہ دہلی حکومت جس طرح سے قبل از وقت رہائی کی درخواستوں کو نمٹارہی ہے، اس سے سنگین خدشات پیدا ہوئےہیں۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ ’’اس معاملے میں دہلی حکومت کے ذریعہ عدالتی کارروائی کو جس انداز میں چلایاگیا اور جس طرح سے قبل از وقت رہائی کی درخواستیں نمٹائی جارہی ہیں، اس کے بارے میں شاید گہری تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ‘‘
 خیال رہے کہ قبل از وقت رہائی کیلئے مجرم کی درخواست پر ابتدائی طور پر سزا کا جائزہ لینے والے بورڈ ( ایس آر بی ) نے ستمبر۲۰۲۴ء میں غور کیا تھا لیکن اسے موخر کر دیا گیا۔ اس کے بعد ۲۵؍ نومبر۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے ہدایت د ی کہ اس کیس پر۹؍ دسمبر سے پہلے دوبارہ غور کیا جائے۔ تاہم۹؍ دسمبر کو عدالت کو بتایا گیا کہ ایس آر بی نے۸؍ دسمبر کو میٹنگ کی، لیکن اتفاق رائے تک پہنچنے میں وہ ناکام رہی۔ 
 دہلی جیل کے قوانین کے ضابطہ۱۲۵۷؍ ( بی ) کے مطابق متفقہ فیصلے کی عدم موجودگی میں اکثریت کا نظریہ غالب ہونا چاہئے۔ اس کے باوجود میٹنگ کے منٹس اس بات کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے کہ اکثریت کی رائے کیا ہے؟جب اس تعلق سے پوچھ تاچھ کی گئی تو میٹنگ میں موجود۲؍ افسران عدالت میں بھی یہ واضح کرنے سے قاصر رہے کہ آیا اکثریت نے قیدی کی رہائی کی حمایت کی یا مخالفت۔ 
 عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ دہلی حکومت نے پہلے یقین دلایا تھا کہ۱۰؍ دسمبر کی میٹنگ میں اس کیس پر غور کیا جائے گا، جو ظاہر ہے کہ وعدے کے مطابق نہیں ہوا۔ اس کے بعد دہلی حکومت نے یکے بعد دیگرے دو میٹنگیں کیں اور بالآخر مجرم کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’’ہم نے قبل از وقت رہائی کے معاملات سے نمٹنے میں دہلی حکومت کی طرف سے اتنی جلدی کبھی نہیں دیکھی۔ ‘‘ان تیز مشاہدات کا سامنا کرتے ہوئے ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ آدتیہ سوندھی نے حاضری دینے والے افسران کی ہدایات پر عدالت کو یقین دلایا کہ ایس آر بی کو ایک نئے فیصلے کیلئے فوری طور پر دوبارہ بلایا جائے گا۔ بنچ نے ریاست کو ہدایت دی کہ وہ اس میٹنگ کے نتائج کو۹؍ مئی۲۰۲۵ء تک ریکارڈ پر رکھے۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب۷؍ فروری۲۰۲۵ء کو دہلی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ایس آر بی کی سفارشات۲؍ فروری کو لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے رکھی گئی ہیں تاہم۷؍ مارچ کو عدالت نے جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ کے حلف نامے کی بنیاد پر اسے جھوٹا پایا، جس نے تصدیق کی کہ۱۰؍ دسمبر کی میٹنگ میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ 
 اس کے نتیجے میں عدالت نے دہلی کے محکمہ داخلہ کے سیکریٹری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ توہین عدالت ایکٹ۱۹۷۱ء کے تحت کارروائی کیوں نہیں شروع کی جانی چاہئے؟۲۸؍ مارچ کو ہوم ڈپارٹمنٹ کے پرنسپل سیکریٹری نے عرض کیا کہ لیفٹیننٹ گورنر کو جو خط بھیجا گیا تھا، وہ سفارش نہیں بلکہ التوا کا نوٹ تھا۔ عدالت نے کہا کہ یہ گمراہ کن ہے اور توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کے بعد ہی ریاست نے عجلت میں درخواست کو مسترد کر دیا۔ ۱۵؍ اپریل کو عدالت نے پرنسپل سیکریٹری اے انبراسو کی طرف سے داخل کرائے گئے حلف نامے کو مسترد کر دیا، جس نے دعویٰ کیا کہ عدالت نے ایس آر بی کی۲؍ فروری کی ’سفارش‘ کو غلط سمجھا۔ 
 جسٹس اوکا نے سختی سے جواب دیا کہ ’’ہم پہلی بار قبل از وقت رہائی کے کیس سے نمٹنے والے بچے نہیں ہیں۔ ایک سفارش یا تو رہائی کی حمایت کرتی ہے یا پھر اس کی مخالفت کرتی ہے، نہ کہ فیصلے تک پہنچنےمیں ناکامی۔ ‘‘حلف نامے کو ’انتہائی قابل اعتراض‘ قرار دیتے ہوئے عدالت نے انبراسو کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کی ہدایت دی۔ 
 اطلاعات کے مطابق وہاں موجود افسران صرف اس بات کی تصدیق کر سکے کہ ایس آر بی کے چیئرمین نے اس درخواست کی مخالفت کی تھی، لیکن بورڈ کے مجموعی موقف کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK