• Thu, 07 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا مدارس کے مہتمم اور علماء کی جانب سے خیرمقدم

Updated: November 06, 2024, 10:36 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

’یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ ۲۰۰۴ء ‘ کو آئین کے عین مطابق قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا ممبئی اور مضافات کے علماء اور مدارس کے مہتمم نے خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ عدلیہ اپنا غیرجانبدارانہ رویہ ہمیشہ برقرار رکھے گی۔

Students receiving religious education in madrasah. (File Photo)
مدرسہ میں طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہوئے۔(فائل فوٹو)

 ’یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ ۲۰۰۴ء ‘ کو آئین کے عین مطابق قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا ممبئی اور مضافات کے علماء اور مدارس کے مہتمم نے خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ عدلیہ اپنا غیرجانبدارانہ رویہ ہمیشہ برقرار رکھے گی۔
 سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے علماء کائونسل کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود دریا بادی نے کہا کہ ’’ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک کا جو عدالتی نظام ہے اور نچلی عدالتوں سے جو فیصلے آرہے ہیں انہیں دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان معاملات کو سپریم کورٹ تک جانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟‘‘
 انہوں نے مزید کہا کہ ’’بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن پر نچلی عدالتوں میں یا ہائی کورٹ میں مناسب فیصلے آ سکتے ہیں۔ یہاں وقت بھی کم صرف ہوتا ہے اور سپریم کورٹ کے بہ نسبت اخراجات بھی کم آتے ہیں لیکن یہاں ایسے فیصلے آرہے ہیں کہ سپریم کورٹ جائے بغیر کام نہیں بن رہا۔ ایسے کئی معاملات اب بھی مختلف عدالتوں میں زیر التواء ہیں جو خالص مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس کانوٹس لے گا اور ان معاملات کے تعلق سے عدالتوں میں مثبت رویہ اختیار کیا جائے گا۔‘‘
 مولانا سید معین الدین اشرف عرف معین میاں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے ایک بار پھر غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا فیصلہ سنایا ہے جس سے حق اور باطل کا فرق صاف ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’دینی مدارس ہماری قوم کا اثاثہ ہیں۔ یہ قوم کے پچھڑنے کے نہیں بلکہ ترقی اور بقاء کے ذرائع ہیں جنہیں نقصان پہنچا کر حکومت قوم کے مستقبل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہی تھی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ معین میاں کے مطابق ’’اس فیصلے سے عوام کا عدلیہ پر یقین مزید پختہ ہوا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے جو حساس معاملات عدالتوں میں زیر التواء ہیں ان پر بھی جلد ہی غیرجانبداری سے فیصلہ سنایا جائے گا۔‘‘
 مولانا محمد زاہد خان قاسمی نائب مہتمم مدرسہ معراج العلوم چیتا کیمپ نے کہا کہ ’’اترپردیش میں ۵۰۰؍ سے ۷۰۰؍ مدارس ہی ایسے ہیں جو سرکار سے مکمل گرانٹ لیتے ہیں۔ ان کے علاوہ ۱۱؍ سے ۱۲؍ہزار مدارس ایسے ہیں جو سرکارکو اپنا پورا حساب کتاب اور دیگر تفصیلات تو فراہم کرتے ہیں لیکن حکومت سے امداد نہیں لیتے۔ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے وہ ان مدارس کیلئے ہے جن کی تعداد زیادہ ہے اور جو سرکاری امداد نہیں لیتے اور اپنے نصاب کے تعلق سے آزاد ہیں اس لئے ان مدارس کے طلبہ کی آگے کی پڑھائی بہتر ہوگی اور مدارس کا آزاد نصاب بھی مستقبل میں باقی رہے گا۔‘‘
 مفتی سید محمد حذیفہ قاسمی جمعیۃ علماء مہاراشٹر (محمود مدنی) ناظم تنظیم اور مدرسہ سراج العلوم بھیونڈی کے استاد نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ میں جو معاملہ تھا وہ صرف ان مدرسوں کے تعلق سے تھا جو رجسٹرڈ ہیں اور حکومت سے امداد حاصل کرتے ہیں لیکن باطل طاقتوں کی زد پر تمام مدارس تھے اور اگر یہ لوگ یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ کو نشانہ بنا نے میں کامیاب ہوجاتے تو اس سے دیگر مدارس کو بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا تھا جو فسادات میں ہونے والے نقصانات سے بھی کئی گنا بڑھا ہوا ہوتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’دراصل ان کی نگاہیں کہیں تھیں اور نشانہ کہیں اور تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے نہ صرف مدرسہ ایکٹ کو جائز قرار دیا بلکہ حکومت کو لتاڑ بھی لگائی کہ آپ کی نگاہیں صرف مدرسوں پر ہی کیوں ہیں، سرکار سے امداد لینے والے دیگر مذاہب کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں کیا جارہا؟‘‘ ان کے مطابق بات یہ ہیکہ چور نے چوری کرنے سے قبل گھر پر پتھر پھینک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ گھر کا مالک سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK