• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سپریم کورٹ نے ممبئی کےکالج میں حجاب کیخلاف سرکیولر پر عارضی روک لگادی

Updated: August 10, 2024, 2:08 PM IST | Agency | New Delhi

کالج انتظامیہ کی سخت سرزنش بھی کی لیکن طالبات سے کہا کہ وہ کالج کے اندر تو برقع پہن سکتی ہیں لیکن کلاس روم میں انہیں اس کی اجازت نہیں ہوگی۔

The students have got little relief from the court decision. Photo: INN
عدالتی فیصلے سے طالبات کو معمولی راحت ملی ہے۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ نے حجاب معاملے پر ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ممبئی  کے مراٹھے کالج کی طالبات کو بڑی راحت دیتے ہوئے حجاب پر پابندی کے سرکیولر پر عارضی روک لگادی۔ کورٹ نے کہا کہ طالبات کالج کیمپس میں تو برقع پہن سکتی ہیں لیکن کلاس میں اس کی اجازت نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس معاملے میں آئندہ سماعت ۱۸؍ نومبر کے بعدطے کرنے کی بات کہی۔ دراصل ممبئی کے این جی آچاریہ اور ڈی کے مراٹھے کالج نے طالبات کے حجاب اور برقع وغیرہ پہننے پر پابندی لگادی تھی۔ اس کے خلاف ۹؍ طالبات  نے پہلے بامبے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے اس عرضی کو خارج کر دیا تھا۔ بعد ازاں عرضی دہندگان نے سپریم کورٹ کا رخ کیا، جہاں انہیں راحت مل گئی  لیکن یہ عارضی راحت دی گئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:دہلی:اسرائیل کےخلاف مظاہرہ کر رہےانسانی حقوق کے کارکنان حراست میں

جسٹس سنجیو کھنہ کی صدارت والی بنچ نے اس معاملے میں سماعت کرتے ہوئے کالج انتظامیہ کی سخت سرزنش بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ اتنے سال سے کالج جاری ہے لیکن انتظامیہ کو اچانک کیسے یاد آیا کہ اب حجاب پر پابندی عائد کردینی چاہئے؟ یہ سوال اتنے سخت انداز میں پوچھا گیا کہ کالج انتظامیہ کے وکیل بغلیں جھانکنے لگے۔ عرضی دہندہ کے وکیل نے بتایا کہ اس کالج میں ۴۰۰؍سے زیادہ مسلم طالبات پڑھ رہی ہیں اور یہ سرکیولر ان سبھی کو کہیں نہ کہیں متاثر کرتا ہے۔ اس دلیل پر جسٹس کھنہ  نے اس پر کالج میں حجاب پر پابندی لگانے کے فیصلہ کے پیچھےکی وجہ دریافت کی۔

کالج کے وکیل کی جانب سے کہاگیا کہ  حجاب پر پابندی کا فیصلہ اس لیے کیا گیا  تاکہ طالبات کا مذہب کسی کو پتہ نہ چلے۔ جواب میں عدالت نے کہا کہ طالبات کا مذہب تو ان کے نام سے پتہ چل جاتا ہے۔ یہ تو کوئی جواز نہ ہوا۔ ایسے اصول اور اتنا بے تکا جواز پیش کرکے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ بنچ میں شامل جسٹس سنجے کمار نے کہا کہ آپ خواتین کو یہ بتا کر کس طرح مضبوط بنا رہے ہیں کہ انہیں کیا پہننا چا ہئے اور کیا نہیں۔ طلبہ کو جو پہننا ہے انہیں پہننے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اس پر کالج انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہو سکتا ۔ عرضی دہندگان کی نمائندگی کر رہے وکیل کولن گونزالوس نے کہا کہ طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں ہر چیز میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے اور ان کی حاضری بھی نہیں لی جارہی ہے۔ جواب میں کالج کی نمائندگی کرنے والی وکیل مادھوی دیوان نے کہا کہ کالج میں مسلم طبقہ کی ۴۴۱؍ طالبات ہیں اور صرف تین حجاب پہننا چاہتی ہیں۔ عدالت نے تمام دلیلوں پر سماعت کے بعد کہا کہ سبھی لڑکیوں کو چاہے وہ حجاب پہنیں یا نہ پہنیں، ساتھ میں تعلیم حاصل کرنے کا برابری کا موقع ملنا چاہئے۔ برقع کے تعلق سے بنچ نے کہا کہ اس پر پابندی لگی رہے گی، یعنی برقع پہن کر کلاس میں نہیں بیٹھا جا سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ برقع پورے جسم کو ڈھکنے کے لیے پہنا جاتا ہے جس سے کالج یا اسکول یونیفارم بھی پوری طرح چھپ جاتا ہے۔ حجاب ، اسکارف یا اسٹول سے سر اور چہرہ کو چھپایا جاتا ہے، جس کا استعمال بیشتر مسلم طالبات کرتی ہیں۔ بہرحال، ممبئی کالج سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ نے برقع پر پابندی ضرور لگائی ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ طالبات برقع پہن کر کالج کے احاطہ میں داخل ہو سکتی ہیں، انہیں کوئی نہیں روک سکتا لیکن بس انھیں کلاس میں بیٹھنے سے قبل برقع اتارنا ہو گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK