• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی پھر سرزنش کی

Updated: January 29, 2025, 4:06 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

ضمانت کے طے شدہ اصولوں سے روگردانی پر برہمی کا اظہار کیا،اترپردیش میں مبینہ تبدیلیٔ مذہب کے معاملہ میں مولوی سید شاہ کاظمی کو ضمانت دی۔

Supreme Court of India. Photo: INN
سپریم کورٹ آف انڈیا۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ایک بار پھر سرزنش کرتے ہوئےضمانت دینے کے طے شدہ اصول سے روگردانی کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اترپردیش میں مبینہ جبری تبدیلیٔ مذہب کے الزام میں مولوی سید شاہ کاظمی کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اپنے مشاہدہ میں کہاکہ ہائی کورٹ کو ضمانت دینے کی ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کم سنگین جرم میں ضمانت دینے کے لئے اپنی صوابدیدی اختیارکا  استعمال کرنے میں ناکام رہنے پر ہائی کورٹس پربھی سوال کیا۔
 سپریم کورٹ میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون کی بنچ نے عرضی گزار مولوی سید شاہ کاظمی کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے ذیلی عدالتوں کے رویہ پر بھی سخت برہمی کااظہار کیا۔ بنچ نے کہاکہ ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ضمانت دینا صوابدید کا معاملہ ہے لیکن ضمانت دینے کے طے شدہ اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالتی طور پر صوابدید کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ صوابدید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جج اپنی مرضی اور پسند کے مطابق یہ کہہ کر ضمانت سے انکار کر دے کہ تبدیلیٔ مذہب بہت سنگین چیز ہے۔ درخواست گزار پر مقدمہ چلایا جائے گا اور بالآخر اگر استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوا تو اسے سزادی جائےگی۔عدالت نے ٹرائل کورٹ کے ججوں کے کام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال بڑی تعداد میںکانفرنسیں، سیمینارز اور ورکشاپس وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ ٹرائل ججوں کو یہ سمجھایا جائے کہ ضمانت کی درخواست پر غور کرتے ہوئے اپنی صوابدید کا استعمال کیسے کیا جائے؟لیکن ٹرائل ججوں کو تعزیرات ہند کی دفعہ ۴۳۹؍ یا بی این ایس ایس کی دفعہ ۴۸۳؍ کے دائرہ کا علم نہیں۔
 عدالت نے مبینہ تبدیلیٔ مذہب کے الزام کے بارے میں مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مبینہ جرم قتل، ڈکیتی اور عصمت دری وغیرہ جیسے سنگین نہیں ہے تو عرضی گزار کو ضمانت کی درخواست کیلئے سپریم کورٹ آنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے تھی۔
 خیال رہےکہ عرضی گزار نے اپنی درخواست میں استدلال کیا تھا کہ اس نےایسے نابالغ بچے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی جس کو اس کے والدین نے  چھوڑ دیا تھا۔اس میں جبری طور پر یا کسی بھی دوسرے طریقہ سے تبدیلیٔ مذہب کا عنصر شامل نہیں تھا۔وہ اس انسانی ہمدردی کے کام کی وجہ سے نشانہ بنائے جانے کی بناء پر پہلے ہی ۱۱؍ ماہ جیل میں گزار چکےہیں، مقدمے کی سماعت ابھی تک نامکمل ہے اور استغاثہ پہلے ہی اپنے گواہوں کی جرح کر چکا ہے۔ دوسری طرف استغاثہ نے دعویٰ کیا بچے کو زبردستی مدرسہ میں رکھا گیا اوراسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
  ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے اپیل کنندہ کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی جس کے بعداسے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔عدالت نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’ ہم یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ اگر درخواست گزار کو مناسب شرائط و ضوابط کے ساتھ ضمانت پر رہا کیا جاتا تو استغاثہ کو کیا نقصان پہنچتا؟ یہ ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے ہائی کورٹس اور اب بدقسمتی سے ملک کی سپریم کورٹ ضمانت کی درخواستوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK