بنگلور کے آئی ٹی انجینئر اتل سبھاش کی خودکشی کے تناظر میں داخل کی گئی مفاد عامہ کی عرضی پرعدالت کا سماعت سے انکار۔
EPAPER
Updated: January 30, 2025, 12:06 PM IST | New Delhi
بنگلور کے آئی ٹی انجینئر اتل سبھاش کی خودکشی کے تناظر میں داخل کی گئی مفاد عامہ کی عرضی پرعدالت کا سماعت سے انکار۔
جہیز اور گھریلو تشدد سے متعلق قانون کے غلط استعمال کےخلاف داخل کی گئی مفاد عامہ کی ایک عرضی(پی آئی ایل) کو سپریم کورٹ نےخارج کردیا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ اس سلسلے میں سماج کو بدلنا ہوگا، عدالت کچھ نہیں کرسکتی۔ پی آئی ایل میں جہیز اور گھریلو تشدد سے متعلق قانون کے غلط استعمال کو روکنے اور اس میں اصلاحات کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ بنگلور کے آئی ٹی انجینئراتل سبھاش کی خودکشی کے تناظر میں یہ پی آئی ایل ایڈوکیٹ وشال تیواری کی جانب سے داخل کی گئی ہے۔ اتل سبھاش نے گزشتہ سال ۹؍ دسمبرکواپنے سسرال والوں کی زیادتیوں اور مسلسل ذہنی ہراسانی سے تنگ آکر خود کشی کرلی تھی اورخود کشی سے پہلےکم و بیش ڈیڑھ گھنٹےکا ویڈیو ریکارڈ کیا تھاجس میں انہوں نے بتایا تھاکہ کس طرح اس کے سسرال والے اس سے لاکھوں روپے اینٹھ چکے ہیں اور مزیددینے کا دباؤ ڈال رہےہیں۔
جسٹس بی وی ناگارتھنا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل بینچ نے اس پی آئی ایل پر سماعت کے دوران تبصرہ کیاکہ تبدیلی کیلئے سماج کو بدلنا ہوگا، عدالت اس تعلق سے کچھ نہیں کرسکتی۔ جسٹس ناگارتھنا نے اس پی آئی ایل پر سماعت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی قوانین موجود ہیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ‘‘
اس عرضی میں جہیز سے متعلق قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ہدایات جاری کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ پٹیشن میں ایسی ہدایات جاری کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہےکہ شادی کے دوران دئیے گئے سامان/تحائف/رقم کی فہرست تیار کی جائے اور اس کا ریکارڈ رکھاجائے، اس کے ساتھ ایک حلف نامہ لیاجائے اور اسے شادی کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کے ساتھ منسلک کیا جائے۔
درخواست گزار نے کہا کہ ’’ جہیز پر پابندی کے قانون اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ ۴۹۸؍اے کا مقصد شادی شدہ خواتین کو جہیز کے مطالبات اور ہراسانی سے بچانا تھا لیکن ہمارے ملک میں یہ قوانین غیر ضروری اور غیر قانونی مطالبات کیلئے اور شوہر کے خاندان کو دبانے کیلئے بسا اوقات ہتھیار کے طورپر استعمال کئے جا رہے ہیں، اس صورت میں جبکہ شوہر وبیوی کے درمیان کوئی دوسری نوعیت کا تنازع پیدا ہوا ہو۔ اس کے علاوہ ان قوانین کے تحت کسی شادی شدہ مرد پر لگائے گئے غلط الزامات کی وجہ سے اکثرایسا بھی ہوتا ہےکہ بیوی کے ساتھ ہونے والی حقیقی زیادتی اورسچے واقعات بھی مشکوک ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
درخواست گزار نے کہا کہ جہیز کے معاملات میں مردوں کو جھوٹےالزامات میں پھنسانے کے بہت سے واقعات اور معاملات سامنے آئے ہیں جن کاانجام انتہائی افسوسناک ہوا اور اس وجہ سے ہمارے انصاف اور تفتیشی نظام پر بھی سوالات کھڑے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف ایک اتل سبھاش کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ایسے مردوں کے معاملات کم ہی سامنے آتے ہیں جنہوں نے بیویوں کے ذریعے دائر کئے گئے مقدمات کی وجہ سے خودکشی کا راستہ اختیار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’جہیز کے قوانین کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال سے ان قوانین کا وہ مقصد فوت ہو گیا جس کیلئے یہ بنائے گئے تھے۔ ‘‘
عدالت نے پٹیشن خارج کرتے ہوئے ایڈوکیٹ وشال تیواری کی اس دلیل کو بھی مسترد کردیا کہ جھوٹے مقدمات عدلیہ پر بوجھ ہوتے ہیں۔ اس پرجسٹس ستیش چندرشرما نے کہا کہ’’ ہم پر کوئی بوجھ نہیں ہے۔ ہم نے حلف لیا ہے۔ مقدمات کا تصفیہ کرنا ہماری ڈیوٹی ہے۔ ‘‘بینچ نےیہ بھی کہا کہ وکیلوں کو درخواست گزارنہیں بننا چاہئے۔ اس کے بعد تیواری نے عرضداشت واپس لے لی۔