محکمہ آثار قدیمہ نے ایم پی ہائی کورٹ کے مارچ کے حکم کے بہانے مسجد میں کھدائی کی جس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے معاملہ چیف جسٹس کے حوالے کردیا
EPAPER
Updated: January 03, 2025, 10:00 AM IST | New Delhi
محکمہ آثار قدیمہ نے ایم پی ہائی کورٹ کے مارچ کے حکم کے بہانے مسجد میں کھدائی کی جس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے معاملہ چیف جسٹس کے حوالے کردیا
عبادتگاہوں کے تحفظ قانون پر فیصلہ آنے تک مساجد اور درگاہوں کے سروے سے متعلق کسی طرح کا حکم جاری نہ کرنے کے سپریم کورٹ کے بالکل واضح اور سخت احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے ذریعہ ایم پی کے دھار شہر کی تاریخی اہمیت کی حامل کمال مولیٰ مسجد میں کھدائی کی جارہی ہے۔اس پر جمعرات کو سپریم کورٹ نے شدید اور نہایت سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی وارننگ دی اور یہ معاملہ چیف جسٹس کو سونپ دیا تاکہ وہ کوئی مناسب فیصلہ کریں۔
سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باجود دائیں بازو کے عناصر اپنی کوششوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ان عناصر نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے گزشتہ سال مارچ میں جاری کئے گئے سروے کے حکم کا سہارا لے کر دھار میں واقع چشتیہ سلسلہ کے بزرگ صوفی کمال الدین سے منسوب کمال مولیٰ مسجد میں سروے کے نام پر کھدائی کا کام شروع کرا دیا۔حکومتی ادارے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے احکامات کی شدید خلاف ورزی کرتے ہوئے کھدائی کا کام جاری رکھاجس کے خلاف مسلم فریق نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست کی ۔
سپریم کورٹ میں جمعرات کو اس معاملے کی سماعت ہوئی جس میں جسٹس رشی کیش رائے اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے مسلم فریق کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے وکیل وشنو شنکر جین کے اس دعویٰ پرسخت برہمی ظاہر کی کہ کمال مولیٰ مسجد عبادتگاہوں کے تحفظ قانون کے دائرے میں نہیں آتی بلکہ یہ اے ایس آئی کی تحویل میں ہے۔بنچ نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئےوشنو شنکر جین اور دیگر کو اس معاملہ میں توہین عدالت کی کارروائی کی وارننگ دی ۔بنچ نے ہندو فار جسٹس نامی تنظیم اور دیگر پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ اگر وہ اس طرح سے اصرار کرنا چاہتے ہیں تو آئیے توہین عدالت کا معاملہ اٹھاتے ہیں۔ ہم نے کچھ تصویریں دیکھی ہیں۔ ہم نے کہا تھا کہ کوئی کھدائی نہیں ہوگی۔ ہمیں تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ کھدائی جاری ہے۔‘‘ بنچ نے وشنو شنکر جین سے نہایت سختی سے پوچھا کہ آیا وہ توہین عدالت کے مرتکب ہونے والوں کی طرف سے نوٹس قبول کرنا چاہتےہیں؟