عدالت عظمیٰ نے کہا : سرکاری افسران، جج نہیں بن سکتے، رہنما خطوط بھی جاری ، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے حکام کیخلاف قانونی کارروائی کا انتباہ دیا گیا
EPAPER
Updated: November 13, 2024, 10:58 PM IST | New Delhi
عدالت عظمیٰ نے کہا : سرکاری افسران، جج نہیں بن سکتے، رہنما خطوط بھی جاری ، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے حکام کیخلاف قانونی کارروائی کا انتباہ دیا گیا
بلڈوز ر راج‘ سے پریشان ملک کے عوام کو اُس وقت بڑی راحت ملی جب بدھ کو سپریم کورٹ نےاسے غیرقانونی عمل قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بات کہی۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہاکہ سرکاری افسران،جج نہیں بن سکتے۔ عدالت عظمیٰ نےملک گیر رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جرم کے مجرم یا ملزم کی جائیداد کو مناسب قانونی عمل کی پیروی کئے بغیر توڑپھوڑ کرنے والے افسر کو سزا دی جائے گی۔
جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوا ناتھن کے بنچ نے پناہ کے حق کو آئین کے آرٹیکل ۲۱؍ کے تحت بنیادی حق کا ایک پہلو قرار دیا اور کہا کہ کسی ملزم یا کسی جرم کے مجرم کی رہائشی یا تجارتی جائیداد کو مناسب قانونی کارروئی کئےبغیر اس پر بلڈوزر نہیںچلایا جاسکتا۔سرکاری افسران کی جانب سے اس طرح کی من مانی اور جابرانہ کارروائی کے خلاف تفصیلی رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے بنچ نے کہاکہ اہلکاروں کی جانب سے ’بلڈوزر کارروائی‘ کرنا ’متوازی طاقت‘ کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوگی جس کے تحت عدلیہ کو ایسے معاملات پر فیصلہ کرنے کا اختیار سونپا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کی جان، آزادی اور املاک کو من مانے طریقے سے چھینا نہیں جا سکتا۔ امن و امان برقرار رکھنا اور شہریوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔جرم ثابت ہونے تک ملزم کی بے گناہی تصور کرنے کے اصول پر زور دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ مجرموں کو من مانی کی گئی کسی بھی کارروائی کے خلاف قانون کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے۔ بنچ نے کہا کہ ’’خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو اس طرح بے گھر ہوتے دیکھنا کوئی خوشگوار منظر نہیں ہے۔‘‘
عدا لت عظمیٰ نے کہا کہ افسران، عدلیہ کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے کاموں کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے اور کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے شہریوں کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ عدالت نے کہا کہ اگر اگزیکٹیو، اپنے طورپر کسی شخص کو مجرم قرار دینا شروع کر دے تو یہ ’مکمل طور پر غیر آئینی‘ ہو گا۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی مکان یا تجارتی املاک کو گرانے سے پہلے متعلقہ افسران کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں ہے۔ بنچ نے کہا کہ گھر کی تعمیر خاندان کے برسوں کے خوابوں، امنگوں اور اجتماعی امید کا نتیجہ ہوتی ہے۔
شہریوں کے خدشات کو دور کرنے کیلئے عدالت نے آئین کے آرٹیکل ۱۴۲؍ کے تحت ہدایات جاری کیں کہ مکمل انصاف کو یقینی بنانے کیلئے انہدام کی کارروائی سے قبل اس شخص کو کم از کم ۱۵؍ دن کا نوٹس دیا جائے جس میں غیر مجاز تعمیرات کی نوعیت اور حد کا ذکر کیا گیا ہو۔ عدالت نے حکومتی افسران کی طرف سے کی گئی اس طرح کی کارروائی کی تفصیلات دینے کیلئے ڈیجیٹل پورٹل بنانے کی بھی ہدایت کی۔عدالت نے کہا کہ انہدام کے حکم پر۱۵؍ دنوں تک عمل نہیں کیا جائے گا اور تمام کارروائیوں کی ویڈیو گرافی کی جائے اور ڈیجیٹل پورٹل پر دکھائی جانی چاہئے۔بنچ نے واضح کیا کہ اگر کوئی افسر عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو توہین عدالت کی کارروائی الگ سے چلائی جائے گی۔ ایسے معاملات میں افسران جائیداد کی واپسی اور نقصان کی تلافی کے ذمہ دار ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’جب حکام فطری انصاف کے بنیادی اصولوں اور تقاضوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے اور بغیر کسی مناسب عمل کے کام کیا تو بلڈوزر سے عمارت کو گرانے کا ہولناک منظر ہمیں دیکھنے کو ملنے لگا۔ یہ اُس صورت حال کی یاد دلاتا ہے جب طاقت کی حکمران تھی لیکن ہمارے آئین میں، جوقانون کی حکمرانی کی بنیاد پر ایستادہ ہے،اس کے ظالمانہ اور من مانی کارروائی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔حکومت کواس طرح کی زیادتیوں کیلئے قانون کے سخت ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ ہمارے آئینی اخلاق اور اقدار طاقت کے اس طرح کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دیتے اورایسے کسی نقصان کو قانون کی عدالت قطعی برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘
سپریم کورٹ نے متعلقہ افسران کو سرکیولر جاری کرنے کیلئے تمام ہائی کورٹس اور ریاستی حکومتوں کو اپنا حکم بھیجنے کی ہدایت کی۔سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ جمعیت علمائے ہند اور دیگر کی طرف سے دائر ایک عرضی پر دیا، جس میں تمام ریاستی حکومتوں کی جانب سے من مانی کارروائی کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگایا گیا تھا۔تاہم عدالت نے واضح کیا کہ ان ہدایات کا اطلاق پبلک اراضی، سڑکوں، آبی ذخائر اور ریلوے سے ملحقہ اراضی پر غیر مجاز تعمیرات پر نہیں ہوگا۔
دوران سماعت سالیسٹر جنرل یا تشارمہتانے عدالت عظمیٰ سے گزارش کی تھی کہ وہ انہدامی کارروائی کے تعلق سے پہلے سے موجود میونسپل قوانین کومتاثر نہ کرے لیکن عدالت نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا۔ خیال رہے کہ اس پورے معاملے میں بلڈوزر کارروائیوں کیخلاف متعدد فریق سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے تھے۔