’کانگریس نے بارڈر سیکوریٹی کے اصولوں میں تبدیلی کے پیچھے کی پوری کہانی بتائی،کانگریس ترجمان سپریہ شرینیت نے بتایا کہ اصولوں میں راحت نہ صرف ہند-پاک سرحد پر بلکہ بنگلہ دیش، چین، میانمار اور نیپال سے ملحق سرحدوں پر بھی دی گئی اور یہ صرف اس لئے کیا گیا تاکہ اڈانی کو زمین سستے میں دی جا سکے۔
کانگریس ترجمان سپریہ شرینیت نے پورا معاملہ تفصیل سے بیان کیاہے۔ تصویر: آئی این این
گجرت کے کَچھ میں گوتم اڈانی ’انرجی پارک‘ بنانے والے ہیں۔ اس کیلئے انہیں سستی شرح پر زمین حاصل ہوئی ہے، جس میں مرکزی حکومت کا اہم کردار سامنے آ رہا ہے۔ بدھ کو اسی معاملے پر کانگریس لیڈران ملکارجن کھرگے ، کے سی وینوگوپال اورپرینکاگاندھی نے حکومت پر ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑکرنے کا الزام لگایاتھا۔جمعرات کوکانگریس ترجمان سپریہ شرینیت نے اس معاملے کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئےحکومت کو نشانہ بنایا ۔ بارڈر سیکورٹی کے اصول کیوں تبدیل کیے گئے اور اس کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہیں، اس کی پوری کہانی کانگریس نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دی ۔ویڈیو کانگریس ترجمان سپریا شرینیت کا ہے جس میں انہوں نے بتایاکہ نریندر مودی نے اپنے دوست اڈانی کو فائدہ پہنچانے کیلئے قومی سلامتی سے کتنا بڑا سمجھوتہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’قومی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت کے مدنظر ہند-پاک سرحد سے۱۰؍ کلومیٹر دور تک موجودہ گاؤں اور سڑکوں کو چھوڑ کر کسی بھی بڑی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن مودی کے ’متر‘ اڈانی کَچھ کے میدان میں ہند-پاک سرحد سے محض ایک کلومیٹر دور بہت بڑے سولر اور وِنڈ پاور پلانٹ کی تعمیر کر رہے ہیں۔‘‘اس بارے میں تفصیلی جانکاری پیش کرتے ہوئے سپریا کہتی ہیں کہ ’’دراصل ہوا ایسا کہ گجرات کے کَچھ علاقہ میں پبلک سیکٹر کی کمپنی سولر انرجی کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ( ایس ای سی آئی) کو گجرات حکومت نے ایک تجدید توانائی پارک کیلئے۲۳؍ ہزار ہیکٹر اراضی الاٹ کی تھی لیکن ایک رخنہ تھا۔ ایس ای سی آئی کو الاٹ کردہ زمین ہند-پاک سرحد کے بہت قریب تھی اور وہاں دفاعی پابندیوں کا مطلب تھا کہ اس زمین پر صرف وِنڈ ٹربائن ہی بن سکتا تھا، سولر پینل نہیں لگ سکتا تھا۔ ایس ای سی آئی کا کہنا تھا کہ ان بندشوں کی وجہ سے یہ پروجیکٹ ہونے میں دقت ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’بس پھر کیا تھا، اپریل ۲۰۲۳ء میں گجرات کے افسران نے دفتر وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس معاملے کو وزارت دفاع کے ساتھ اٹھانے کیلئے کہا۔ گجرات حکومت کے سولر اور وِنڈ تجویز پر تبادلہ خیال کیلئے ۲۱؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو دہلی میں ایک خفیہ سرکاری میٹنگ طلب کی گئی۔ اس میں فوجی آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل، گجرات اور نیو اینڈ رینیوئبل انرجی وزارت کے افسران کے علاوہ ایس ای سی آئی نے بھی حصہ لیا۔‘‘کانگریس ترجمان سپریہ شرینیت نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سینئر فوجی افسران کے ذریعہ بین الاقوامی سرحد پر ٹینک موومنٹ اور سیکوریٹی نگرانی میں سولر پینل سے دقتیں آنے کے اندیشے ظاہر کئے تھے، لیکن، ڈیولپرس نے یقین دلایا کہ دشمن کی ٹینک سرگرمیوں کو دیکھنے میں سولر پینل رخنہ انداز نہیں بنیں گے۔ اس کے علاوہ شمسی پینل کے سائز میں تبدیلی سے متعلق فوجی افسران کی گزارش کو بھی ڈیولپرس نے خارج کر دیا تھا۔ اس میٹنگ کے آخر میں وزارت دفاع نے سولر پینلوںکو۲؍ کلومیٹر اور وِنڈ ٹربائنوں کو پاکستان سے ایک کلومیٹر کے قریب بنانے کی اجازت دے دی۔
کانگریس ترجمان نے کہا کہ ۸؍ مئی ۲۰۲۳ء تک مودی حکومت نے اس فیصلے کو باضابطہ شکل بھی دے دی تھی۔ یہی نہیں، اصولوں میں تبدیلی کی اطلاع دینےکیلئے سبھی وزارتوں کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، اور پھر ہوا کھیل۔ ایس ای سی آئی کی سبھی فکروں کو دور کرنے کے باوجود۳؍ ماہ بعد کمپنی نے وزیر برائے تجدید توانائی کی ہدایت پر زمین واپس کر دی ۔ اس کے بعد گجرات حکومت نے اسے پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کیلئے ریزرو کرنے کے اپنے پہلے کے فیصلے کو پلٹ دیا اور پھر اسے اڈانی کو الاٹ کر دیا ۔ اس طرح مرکز کی مودی حکومت اور گجرات کی بی جے پی حکومت نے ساز باز اور سازش سے سارے اصول و قوانین بدل کر زمین بالآخر اڈانی کو سونپ ہی دی۔‘‘ سپریہ شرینیت نے مزید کہا کہ ’’کمال کی بات یہ ہے کہ اصولوں میں راحت نہ صرف ہند-پاک سرحد پر بلکہ بنگلہ دیش، چین، میانمار اور نیپال سے ملحق سرحد پر بھی دے دی گئی۔ اتنا بڑا اسٹرٹیجک فیصلہ جو ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، وہ صرف اڈانی کو سستی زمین دینے کے ارادہ سے لیا گیا۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’بارڈر سیکوریٹی کے پیمانوں اور اصولوں میں تبدیلی کر کے مودی نے ہماری جغرافیائی سالمیت کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ یہ ہے ان کا فرضی نیشنلزم اور نقلی حب الوطنی۔‘‘