• Thu, 27 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

آسام کے ۶۳؍ مسلمانوں پر ملک بدرکئے جانے کی تلوار

Updated: February 27, 2025, 12:07 PM IST | Inquilab News Network | Guwahati/New Delhi

سپریم کورٹ نے کارروائی کا حکم دیا، اہل خانہ نے مخالفت کی، ٹربیونل کے عجیب وغریب فیصلوں نے ہنستے کھیلتے گھر تباہ کردیئے۔

The two brothers of Sirajul Haq who are lodged in the detention center of Golpara district. Photo: Raqib-ul-Zaman, courtesy Scroll
سراج الحق جو گول پاڑہ ضلع کے ڈٹینشن سینٹر میں بند ہیں کے دونوں بھائی۔ تصویر: رقیب الزماں ،بشکریہ اسکرول

آسام کے ڈٹینشن سینٹروں میں بند کم ز کم  ۶۳؍ مسلمانوں  کو سپریم کورٹ نے  فوری طور پر ملک بدر کرنے کا حکم  دے دیا ہے۔ اس حکم کی وجہ آسام حکومت کا وہ حلف نامہ ہے جس میں  اِن  تمام کو  بنگلہ دیشی قرار دیا گیاہے۔ دوسری طرف مذکورہ افراد کے رشتہ داروں  نے جوآسام میں ہی مقیم ہیں، ان کے غیر ملکی ہونے کی پُرزورمخالفت کی ہے۔ متعدد نے اس کے خلاف عدالتوں  سے رجوع کیا ہے۔ 
 فروری کے پہلے ہفتے میں اس معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نےا س بات پر برہمی کااظہار کیا کہ ریاستی حکومت نے اب تک مذکورہ ۶۳؍ افراد کی ملک بدری کی کارروائی شروع نہیں کی ہے۔ یہ لوگ آسام کے گول پارہ ضلع میں  واقع ڈٹینشن سینٹر میں ہیں۔ سپریم  کورٹ کے   اس سوال پر کہ انہیں  اب تک   ملک بدر کیوں  نہیں کیاگیا ،آسام حکومت نے کہا ہے کہ مذکورہ ’’غیر ملکیوں‘‘ نے ’’بیرونِ ملک ‘‘ اپنے پتے نہیں  دیئے اس لئے  انہیں وہاں منتقل نہیں کیا جاسکا۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد کو ملک بدر کرنے کی تیاری کی جارہی ہےان کے خاندان ہندوستان  میں  ہیں۔  ’اسکرول ڈاٹ اِن ‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں  بتایا ہے کہ  مذکورہ ۶۳؍ میں سے کم از کم  ۲۰؍ افراد نے ’’غیر ملکی‘‘ قرار دینے کے ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ سمیت کئی عدالتوں میں  چیلنج کیا ہے۔ 
  اسکرول کے رپورٹر نے ان میں  سے ۷؍ افراد  کے اہل خانہ سے رابطہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے غیر ملکی ہونے کے الزام کو خارج کرتے ہوئے دستاویز دکھائے ۔ ۶۳؍ میں سے ۲۷؍ افراد کو گزشتہ سال ستمبر میں ہی  ڈٹینشن سینٹر منتقل کیا گیا ہے۔ان میں بار پیٹا ضلع کے سراج الحق  شامل ہیں ۔ان کے بھائی عبدالمجید  کہتے ہیں کہ ’’وہ غیر ملکی کیسے ہوسکتا ہے، ہمارے والدین یہاں پیدا ہوئے، میری ماں کا نام ۱۹۶۶ء اور ۱۹۷۱ء کی ووٹر لسٹ میں موجود ہے۔‘‘  انہوں  نے بتایا کہ ان کا بھائی ۱۹۸۹ء تک ووٹ دیتا رہاہے۔ 
  عبدالمجید کے مطابق ان کے بھائی  کے پاس ہندوستان میں زمین کی ملکیت کے کاغذات موجود ہیں، ۲۰۱۸ء  میں پی ایم آواس یوجنا کے تحت انہیں گھر تک الاٹ ہوچکاہے، این آرسی میں ان کا نام بھی موجود ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’این آر سی افسران نے ہمارے ۱۹۷۱ء کے دستاویز کئی بار چیک کئے، اگر ہمارے پاس ثبوت نہ ہوتے تو وہ ہمیں این آرسی (ہندوستانی شہریوں کا رجسٹر)  میں کیوں شامل کرتے؟‘‘ 
 آسام حکومت کے اس دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہ سراج الحق  بنگلہ دیشی ہے، عبدالمجید نے کہا کہ ’’ہمارا وہاں کوئی نہیں ہے، ہم کبھی وہاں گئے بھی نہیں۔ ہم بنگلہ دیش کے بار ے میں کچھ جانتے ہی نہیں،وہ کالا ہے کہ گورا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK