نیشنل لاء یونیورسٹی بنگلورو سے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کا فیصلہ تھا۔ طلبہ کو مشورہ دیا کہ اچھی منصوبہ بندی اور سخت محنت کریں
EPAPER
Updated: April 24, 2025, 12:13 PM IST | Mumbai
نیشنل لاء یونیورسٹی بنگلورو سے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کا فیصلہ تھا۔ طلبہ کو مشورہ دیا کہ اچھی منصوبہ بندی اور سخت محنت کریں
یونین پبلک سروس کمیشن (یوپی ایس سی) امتحان پاس کرنے والے بھیونڈی کے سیّدم حمدعارف کو اس مقابلہ جاتی امتحان میں چوتھی کوشش میں کامیابی ملی۔ وہ اپنی ناکامی سے مایوس نہیں ہوئے اور یکسوئی سے اس کی تیاری کی۔
انقلاب سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد عارف نے کہا کہ ’’ ایم ای ایس اسکول ( انگریزی میڈیم) سے میں نے ۲۰۱۲ء میں دسویں جماعت کا امتحان۹۰؍ فیصد مارکس سے کامیاب کیا۔ بعد ازیں تھانے کے بیڈیکر جونیئر کالج سے ۲۰۱۴ء میں ۸۵؍فیصد مارکس سے بارہویں کامرس کا امتحان کامیاب کیا۔ والد چونکہ وکیل تھے اس لئے میں نے’سی ایل اے ٹی‘ کی تیاری شروع کی تھی۔ اسی بنیاد پر میرا داخلہ نیشنل لاء یونیورسٹی بنگلورو میں ہوا جہاں سے میں نے بی اے آنرس کے ساتھ ۵؍سالہ ایل ایل بی کی ڈگری ۲۰۱۹ء میں ۷۵؍ فیصد نمبروں سے کامیاب کی۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ بنگلورو سے واپسی کے بعد اپنے والد کی نگرانی میں چند ماہ بھیونڈی، تھانے اور ممبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس بھی کی۔ بعد ازیں مجھے پریکٹس کے دوران کچھ خلاء سا محسوس ہونے لگا۔ والد سے گفتگو کی انھوں نے مجھے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کا مشورہ دیا۔ میں نے سنجیدگی سے اس پر غور کیا اور کووڈ ۱۹؍ وبا کے بعد ستمبر ۲۰۲۰ء سے یوپی ایس سی کی تیاری شروع کی۔ بعد ازیں ۲۰۲۱ء میں دہلی چلا آیا اور ہمدرد اسٹڈی سرکل جوائن کیا۔ یہاں پانچ ماہ تیاری کی۔۲۰۲۱ء کی پہلی ہی کوشش میں پریلیم امتحان کوالیفائی کیا اور مینس کی تیاری کے لئے جامعہ ملیہ ریسیڈنسی شئیل کوچنگ جوائن کی لیکن مینس کی پڑھائی کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی ہاتھ آئی پھر۲۰۲۲ء کا اشتہار آیا اور الحمد للہ ایک ہی جست میں پریلیم، مینس کوالیفائی کر انٹرویو تک پہنچا مگر بدقسمتی سے فائنل لسٹ میں جگہ نہیں مل پائی۔ ۲۰۲۳ء کا سال میرے لئے مایوس کن اور بہت پریشانی سے بھرا رہا۔ جہاں میں پریلیم بھی کوالیفائی نہیں کر پایا میں بہت دل برداشتہ ہوا۔ تب میں نے یو پی ایس سی کی پڑھائی ترک کرنے کا ارادہ کرلیا۔ چونکہ ماضی میں دونوں کوششوں میں میں نے اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کر دکھایا تھا مگر تیسری کوشش میں پریلیم بھی کوالیفائی نہ کرسکنا کتنا بڑا سیٹ بیک ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ صرف میں ہی لگا سکتا تھا۔ اس وقت میرے ابو اور گھر والوں نے میری دلجوئی کی مجھے کافی سمجھایا۔ تب میں نے باریک بینی سے ناکامی کی وجہ تلاش کی تو مجھے احساس ہوا کہ میں خود بھی اس ناکامی کا کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہوں۔ چونکہ۲۰۲۲ء کا فائنل رزلٹ کافی تاخیر سے ظاہر ہوا تھا اور میں اس امتحان سے کافی پُڑ امید تھا۔ جب میں فائنل لسٹ میں جگہ نہ بنا سکا تو میں نے جب تیاری شروع کی، اس وقت ڈر اور خوف مجھ پر حاوی رہا۔ میں کم وقت میں یکسوئی سے تیاری نہیں کر سکا تھا۔ ان تمام وجوہات جاننے کے بعد میں نے مثبت انداز سے پڑھائی شروع کی اور ۲۰۲۴ء کا امتحان ایک نئے عزم کے ساتھ شروع کیا اور الحمد للہ تمام مراحل پریلیم، مینس اور انٹرویو ایک کے بعد ایک یکسوئی سے عبور کئے۔ میں اب بہت خوش ہوں۔ ‘‘عارف سیّد کے مطابق میری کامیابی کہ ’’یہ سفر مسلسل پانچ برس پر محیط رہا۔ اس دوران میں نے یو پی ایس سی کی پڑھائی کے ساتھ اپناایل ایل ایم بھی مکمل کیا۔ میرا رینک ۵۹۴؍ ہے ۔ میں کلاس امپرومنٹ کیلئے دوبارہ امتحان کی تیاری کا خواہ ہوں۔
اپنے خاندان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے محمدعارف نے کہا کہ میرے والد معین الدین پیشہ سے وکیل ہیں جن کا آبائی وطن گورکھپور (اترپردیش) ہے۔ میری والدہ ہاجرہ سید خاتون خانہ ہیں اور انھوں نے انجمن اسلام ہائی اسکول کرلا سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ دو بہنیں رافعہ سید وکیل اور شاہدہ سید کامرس میں پوسٹ گریجویٹ ہے اور مینجمنٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ میرے ایک بھائی حیدر سید نے وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے۔
سیّد محمد عارف کے بقول ’’میں اپنی اس کامیابی کو اپنے والدین سے منسوب کرنا چاہوں گا۔ انھوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھ کر ہم تمام بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ میں طلبہ سے کہنا چاہوں گا کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد کا تعین کرے اچھی منصوبہ بندی کریں،سخت محنت کو اپنا شعار بنائیں۔ ناکامی سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ خاص طور سے سرکاری نوکریوں کے حصول کیلئے کوشاں رہیں ۔ میں نے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے یو پی ایس سی کا سفر شروع کہا تھا اور یکسوئی کے ساتھ اسے عبور کیا۔