صوبہ طرطوس میں اسد حکومت کے افسر کی گرفتاری کے دوران اسکے حامیوں کے پولیس اور فورسیز پر حملے،مجموعی طور پر ۱۷؍افراد ہلاک۔
EPAPER
Updated: December 27, 2024, 10:08 AM IST | Damascus
صوبہ طرطوس میں اسد حکومت کے افسر کی گرفتاری کے دوران اسکے حامیوں کے پولیس اور فورسیز پر حملے،مجموعی طور پر ۱۷؍افراد ہلاک۔
شام میں صوبہ طرطوس کے حمص اور جبلیہ میں ملک میں اقتدار میں آنے والی مسلح اپوزیشن افواج اور مقامی مظاہرین کے مابین جھڑپوں کے باعث کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ لاذقیہ اور حلب میں ایک مزار کے انہدام کے خلاف اقلیتی طبقات کی جانب سے ہونے والا احتجاج پرتشدد شکل اختیار کرگیا۔
غیرملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹس کے مطابق طرطوس میں بشارالاسد کی حامی فورسیز کے حملوں میں۱۴؍ پولیس اہلکاروں سمیت ۱۷؍ افراد ہلاک اور۱۰؍ زخمی ہو گئے ، جھڑپیں بشارالاسد کے ملٹری جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرمحمد کانجو حسن کی گرفتاری کے دوران ہوئیں۔ شامی صوبہ طرطوس بشارالاسد کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے، محمد کانجو حسن کی گرفتاری کیلئے جانے والے پولیس اہلکاروں کو گھات لگا کر نشانہ بنایا گیا، شام کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔
شام کے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نے بدھ کے روز حکام، پولیس اور شہریوں کے حوالے سے اطلاع دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حمص میں مقامی وقت کے مطابق صبح۸؍ بجے سے شام۶؍بجے کے درمیان کرفیو نافذ رہے گا۔ جبکہ جبلیہ میں صبح۸؍ بجے سے شام۸؍ بجے کے درمیان کرفیو رہے گا۔ مزید برآں شام کے بندرگاہی شہر لاذقیہ میں شام۸؍ بجے سے عارضی کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ایک شامی اہلکار نے اسپوتنک کو بتایا کہ کئی روز قبل مسلح افراد نے حلب میں۱۰؍ویں صدی کے علوی شیخ ابو عبداللہ الحسین الخصیبی کے مزار کو آگ لگا دی تھی جس سے مقامی آبادی میں احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ ذرائع نے مزید کہا کہ حمص کی فوجی انتظامیہ کے افسران نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے کم از کم ایک شہری ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔ شام کی مسلح اپوزیشن نے۸؍ دسمبر کو دمشق پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد شامی صدر بشار الاسد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تھا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شام میں عبوری حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے، حکام نے مغربی ساحلی شہروں طرطوس اور لطاکیہ اور مرکزی شہر حمص میں۲۴؍ گھنٹے کے کرفیو کا اعلان کیا، جو جمعرات کی صبح۵؍ بجے سے نافذ العمل ہے۔
العربیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام میں بدھ کے روز سوشل میڈیا پر ایک پرانی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد حالات بگڑ گئے۔ ویڈیو میں حلب کے علاقے میسلون میں علوی سماج کی بزرگ شخصیت ابو عبداللہ الحسین الخصیبی کے مزار پر مسلح افراد کے حملے، مزار کے۵؍ خادموں کے قتل اور ان کی لاشوں کو مسخ کرتے دکھایا گیا۔ وڈیو میں دیکھا گیا کہ حملہ آوروں نے مزار میں توڑ پھوڑ کی اور اس کے اندر آگ لگا دی۔ العربیہ کے ذرائع کے مطابق اس واقعے کی مذمت میں شامی ساحل کے علاقوں، حمص اور وسطی دمشق میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اس دوران میں بعض مظاہروں میں پر تشدد کارروائیاں اور جھڑپیں بھی دیکھی گئیں۔مذکورہ معاملے میں حمص کے علاقے الحضارہ میں مظاہرے ہوئے۔دمشق میں المزہ۸۶؍ کے علاقے میں مظاہرہ ہوا ۔ ادھر شامی وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پرانی وڈیو حلب شہر کو آزاد کرائے جانے کے وقت کی ہے اور یہ حرکت نا معلوم گروپوں نے کی۔