کانگریس پارٹی کے رُکن لوک سبھا طارق انور نے جہاں معیشت کی بدحالی کا ذکر کیا وہیں بہار کو دئیے گئے لالی پاپ پر بھی سوال اٹھایا۔
EPAPER
Updated: February 08, 2025, 1:34 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کانگریس پارٹی کے رُکن لوک سبھا طارق انور نے جہاں معیشت کی بدحالی کا ذکر کیا وہیں بہار کو دئیے گئے لالی پاپ پر بھی سوال اٹھایا۔
میں کوئی ماہر اقتصادیات نہیں ہوں اور نہ ہی یہ میرا موضوع رہا ہے۔ میں ایک عام طالبعلم اور عام شہری ہونے کے ناطےعوام کے جذبات اور احساسات کو ایوان کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی حکومت کی طرف سے اعداد و شمار کے جال میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو نہایت افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم مودی نے صدر جمہوریہ کے خطاب کے جواب میں جس طرح غلط بیانی سے کام لیا وہ حیران کن ہے۔ شاید ہمارے ایک مشہور شاعر نے ایسے ہی موقع کیلئے کہا تھا:
وہ جھوٹ بول رہا تھابڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
لگتا ہےمودی حکومت نے ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ انتخابی نتائج کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کو سوچنا چا ہئے تھا کہ آنے والے وقت میں ایسا بجٹ پیش کیا جائے یا ایسا روڈ میپ بنایا جائے جو ملک کی بڑی مشکلات کا حل پیش کرےلیکن ایسا نہیں ہوا۔ عوام کو توقع تھی کہ بجٹ میں غربت کم کرنے، بیروزگاری ختم کرنے اور مہنگائی سے نجات دلانےکیلئے کچھ مؤثر اقدامات تجویز کئے جائیں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ پچھلے ۱۰؍ سال میں ۲۵؍ کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں جو سننے میں تو اچھا لگتا ہےلیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔اگر واقعی غریبوں کی تعداد کم ہوئی ہے تو کھپت اور ڈیمانڈ میں اضافہ کیوں نہیں ہوا ؟ اگر صرف ۱۵؍کروڑ لوگ غریب باقی ہیں تو پھر ۸۰؍کروڑ لوگوں کو مفت راشن کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ اگر واقعی غربت کم ہوئی ہے تو نیتی آیوگ کے دعوئوںکو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارہ تسلیم کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر غربت ناپنے کے معیار کیوں تبدیل کئےگئے؟
اسی سے ملتا جلتا میرا ایک اور سوال یہ ہے کہ حکومت روپے کی قدر کو برقرار رکھنے میں ناکام کیوں ہے ؟ روپیہ اس وقت ’پاتال ‘میں پہنچ چکا ہے۔ اسے واپس لانے کا مودی سرکار کے پاس کوئی منصوبہ ہے؟ کانگریس کی حکومتوں نے غربت کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جیسے کوئلہ کانوں کو قومیانا، زرعی اصلاحات۔
کانگریس پارٹی کی مختلف حکومتوں نے ملک کی ترقی کے لئے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کئے لیکن مودی سرکار کیا کر رہی ہے ؟وہ کئی منصوبوں کو یا تو بند کررہی ہے یا پھر ان کا فنڈ مختصر کررہی ہے۔ اس بجٹ میں بہار کا بھی کئی بار ذکر ہوا لیکن حقیقت میں بہار کو کچھ نہیں دیا گیا۔ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا وعدہ بھی اب تک پورا نہیں ہوا۔ بہار کو صرف زبانی جمع خرچ ملا جبکہ عملی طور پرکسی بڑے پیکیج یا خصوصی فنڈ کا اعلان ضروری تھا۔ بہار کی غربت کا اندازہ بھی اب تک درست طریقے سے نہیں لگایا گیا ہے۔ اسی لئے بہار کے پیکیج پر بغلیں نہ بجائی جائیں کیوں کہ اسے کچھ ملا ہی نہیں ہے۔ البتہ مکھانا بورڈکے قیام کا ذکر ضرور ہوا لیکن اس کیلئے کتنی مالی مدد دی جائے گی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ گزشتہ بجٹ پچھلے بجٹ کے مقابلے اس بجٹ میں کسانوں کے لئے مختص رقم میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن مجموعی طور پر محض ۴؍ ہزار کروڑ روپے زراعت کیلئے دئیے گئے ہیں جبکہ دیہی ترقی کے فنڈز میں کمی کی گئی ہے، منریگا کا بجٹ نہیں بڑھایا گیا ہے اور ایم ایس پی کی قانونی ضمانت کا کسان آج بھی انتظار کر رہے ہیں۔ معاشی سست روی اور بے وزگاری کی ضمن میں گفتگو کروں تو یہ پورا سیشن اس کیلئے درکار ہو گا۔ لگتا ہے کہ سرکار اس مسئلہ کو مسئلہ ہی نہیں مان رہی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح لگاتار گر رہی ہے۔ لوگ اپنی بچت ختم کر رہے ہیں اور اپنے زیورات تک گروی رکھنے پر مجبور ہیں۔ گھریلو بچت ۵۰؍سال میں سب سے کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے بینک قرضوں کی عدم ادائیگی میں ۳۰؍فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہ سرکار کہہ رہی ہے کہ وہ معیشت کو درست سمت میں لے جارہے ہیں۔ روزگار کے ذیل میں گفتگو کی جائے تو وزیر اعظم انٹرن شپ اسکیم کے تحت ۵؍سال میں ایک کروڑ نوجوانوں کو انٹرن شپ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک سال میں محض ۲۸۱۱؍ افراد کو انٹرن شپ دی گئی۔ اب آتے ہیں معیشت میں سرمایہ کاری پر اور یہ سوال لازمی طور پر پوچھا جانا چاہئے کہ معیشت میں سرمایہ کاری کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجوہات میری نظر میں تجارتی اداروں کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی جیسے اداروں کا غلط استعمال، سیاسی انتقام کے تحت کارروائیاں اور سخت ٹیکس پالیسیاں ہیں۔ عام آدمی پرجی ایس ٹی کا بوجھ بڑھا دیا گیا ہے۔ آٹا، دہی، ادویات، تعلیم، پاپ کورن اور یہاں تک کہ پرانی کاروں پر بھی بھاری ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں کوئی کیسے اور کس بنیاد پر سرمایہ کاری کرے۔ رہی بات ۵؍ ٹریلین ڈالرس کی معیشت بنانے کی تو اس کے لئے ہر سال ۱۰؍ فیصد جی ڈی پی کی شرح ضروری ہے لیکن یہ اس حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ حکومت صرف تشہیر اور کھوکھلے دعوئوں پر یقین رکھتی ہے۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تشہیر چھوڑ کر ملک کی معیشت، کسانوں، نوجوانوں، اور غریبوں کی حقیقی مشکلات پر توجہ دے۔