اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی یاترائوں سے ریاست کی فضا مکدّر ہوگی اور اس کا خسارہ نتیش کمار کو کہیں زیادہ ہوگا کہ ان کی سیاسی شبیہ کو مسخ کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور اس سے وہ انجان نہیں ہیں ۔
EPAPER
Updated: October 31, 2024, 11:59 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی یاترائوں سے ریاست کی فضا مکدّر ہوگی اور اس کا خسارہ نتیش کمار کو کہیں زیادہ ہوگا کہ ان کی سیاسی شبیہ کو مسخ کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور اس سے وہ انجان نہیں ہیں ۔
بہار میں گزشتہ دو دہائیوں سے نتیش کمار کی قیادت والی اتحادی حکومت ہے اگر چند برسوں کو چھوڑ دیں تو ہمیشہ بھارتیہ جنتا پارٹی نتیش کمار کی کابینہ میں شامل رہی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے میں نتیش کمار کی سنجیدہ کوشش رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مدت کار میں ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا سازگار رہی ہے اور اگر کبھی کہیں نازیبا واقعات رونما ہوئے تو اس پر فوراً قابو پالیا گیا۔ فرقہ وارانہ فسادات کی واردات میں کمی ہوئی ہے لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب سے بہار میں بھابی جے پی کی اتحادی حکومت قائم ہوئی ہے، زمینی سطح پر شدت پسند نظریہ کو استحکام ملا ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف سیاسی مفادہے۔ بالخصوص حالیہ دنوں میں جب جنتا دل متحدہ کے ممبرانِ پارلیمنٹ کی بدولت مرکز کی موجودہ نریندر مودی حکومت قائم ہے تو ایک طرف جنتا دل متحدہ کا حوصلہ بڑھا ہوا ہے اور وہ احساس برتری سے لبریز ہے تو دوسری طرف بی جے پی کی یہ کوشش ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے طورپر ابھرے اور اس کی قیادت میں ریاستی حکومت تشکیل پائے۔ اسی رسّہ کشی کے سیاسی ماحول میں وقتاً فوقتاً بی جے پی کے لیڈروں کے ذریعہ کچھ ایسے بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں جس سے ریاست کے خاص طبقے کی دل آزاری ہوتی ہے اور اس سے نتیش کمار کے لئے مشکلیں پیدا ہوتی ہیں کیوں کہ ریاست میں نتیش کمار کی جو شبیہ ہے وہ اب بھی انصاف پسند لیڈر کے طورپر ہے جب کہ وہ برسوں سے بی جے پی کے ساتھ ہیں ۔ گزشتہ دنوں بی جے پی کے لیڈر اور مودی کابینہ کے وزیر گری راج سنگھ کے ’’ہندو سوابھیمان‘‘ یاترا کا سوال ہے تو گری راج سنگھ کے کردار وعمل سے ہر شخص واقف ہے کہ ان کی سیاست کی پونجی ہی سنگھ کے نظریوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اقلیت مسلم طبقے کے خلاف ہندو طبقے کو مشتعل کرنے کی ہے۔ مسلم طبقے کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اس وقت صرف گری راج سنگھ تنہا لیڈر نہیں ہیں جو ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کر رہے ہیں۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ جب ’’بٹوگے تو کٹوگے‘‘ کا نعرہ دیا جاتا ہے تو اس کا مقصد بھی شدت پسند ہندوئوں کو متحد کرنا ہی ہے اور اب تو متھرا کے اجلاس میں آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان کی حمایت کی ہے۔ گری راج سنگھ کا ریاست بہار میں ’’ہندو سوابھیمان یاترا‘‘ بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ واضح رہے کہ گری راج سنگھ نے شمالی بہار کے سیمانچل کے کشن گنج، پورنیہ، ارریہ اور فاربس گنج سے اپنی یاترا شروع کی ہے۔ ظاہر ہے کہ سیمانچل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہاں پہلے سے بھی سنگھ پریوار زمینی سطح پر کام کرتا رہاہے۔ ان دنوں ریاست بہار کے بھاجپا ریاستی صدر دلیپ جیسوال کا تعلق بھی سیمانچل کے ضلع کشن گنج سے ہے۔ اگرچہ بی جے پی نے گری راج سنگھ کی اس یاترا سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ بہار میں اتحادی حکومت ہونے کی وجہ سے بھاجپا نے خود کو ظاہری طورپر گری راج سنگھ کی اس یاترا سے الگ رکھنے کا ناٹک کیا ہے ورنہ گری راج سنگھ کی یاترا میں سیمانچل کے تمام بی جے پی لیڈران کی شمولیت دیکھنے کو ملی ہے اور ارریہ کے ممبر پارلیمنٹ نے جس طرح مسلم اقلیت کے خلاف متنازع بیان دیاہے وہ کسی بھی طرح ایک جمہوری ملک کے لئے افسوسناک ہے۔ واضح رہے کہ ارریہ کے ممبر پارلیمنٹ پردیپ سنگھ کا یہ متنازع بیان کہ ’’ارریہ میں جو رہے گا اسے ہندو ہو کر رہنا ہوگا‘‘۔ نتیش حکومت کے لئے دردِ سر بن گیاہے۔ جنتا دل متحدہ کے لیڈروں کی طرف سے ان کے غیر آئینی بیان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا بھی مطالبہ ہو رہاہے اور نتیش کمار کی طرف سے بھی اپنی ناراضگی ظاہر کی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے اتحادی پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کے خلاف کون سا قدم اٹھاتے ہیں۔ لیکن یہاں اس تلخ سچائی کی طرف بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ آج اگر ارریہ پارلیمنٹ حلقہ سے پردیپ سنگھ کامیاب ہوئے ہیں تو وہ صرف اور صرف مسلم اقلیتوں کے ووٹوں میں انتشار کی بدولت، کیونکہ حالیہ پارلیمنٹ انتخاب میں وہاں کے راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار محض بیس ہزار ووٹوں سے ناکام رہے جبکہ پانچ مسلم آزاد امیدواروں نے تقریباً پینتیس ہزار ووٹ حاصل کئے۔
بہر کیف! بہار میں ان دنوں پل پل سیاست بدل رہی ہے۔ ایک طرف نتیش کمار کے تیور تلخ ہو رہے ہیں اور جنتا دل متحدہ کے دیگر لیڈروں کی طرف سے بھی گری راج سنگھ کی حالیہ یاترا کو ریاست کی سیاست کے حق میں نہیں بتایا جا رہاہے تو دوسری طرف گری راج سنگھ کے حامیوں کا حوصلہ بلند ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی انتخاب کی زمین تیار کر رہے ہیں اور شدت پسند ہندوتوا کی چنگاری کو شعلہ بنانے کا کام کر رہے ہیں جس کا خاطر خواہ فائدہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو ملے گا۔ جہاں تک انڈیا اتحاد کا سوال ہے تو اس کی طرف سنّاٹا ہی سنّاٹا ہے کہ کوئی منہ کھولنے کو بھی تیار نہیں ہے البتہ راشٹریہ جنتا دل نے گزشتہ دن سیوان کے لیڈر مرحوم شہاب الدین کی بیوہ حنا شہاب اور ان کے صاحبزادے اسامہ شہاب کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے اورلالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو نے اس کی شمولیت کو پارٹی کے لئے مفید قرار دیاہے۔ البتہ لالو یادو نے بھی گری راج سنگھ کی یاترا کی مذمت کی ہے مگر یہ حقیقت بھی جگ ظاہر ہے کہ لالو یادو کا بیان بھی سیاسی مفاد پر ہی مبنی ہے اس لئے اقلیت مسلم طبقے کو گری راج سنگھ کی یاترا پر ہائے توبہ مچانے سے پرہیز کرتے ہوئے مسلم طبقے میں جو فکری ونظری انتشار ہے اس کو دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے اور بالخصوص سیمانچل میں تو اس کی اشد ضرورت ہے کہ اسی فکری ونظری انتشار کا نتیجہ ہے کہ پردیپ سنگھ ارریہ سے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے مسلمانوں کو للکار رہاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی یاترائوں سے ریاست کی فضا مکدّر ہوگی اور اس کا خسارہ نتیش کمار کو کہیں زیادہ ہوگا کہ ان کی سیاسی شبیہ کو مسخ کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور اس سے وہ انجان نہیں ہیں ۔