• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اس لئے بھی آگ اُگل رہا ہے موسم

Updated: May 24, 2024, 8:44 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس بار کی گرمی جہنم کی یاد دلا رہی ہے۔ وجہ ہے کاربن کی زیادہ پیداوار۔ مائیکرو سافٹ نے چار سال پہلے یقین دہانی کی تھی کہ کمپنی کی کوشش ہے کہ ۲۰۳۰ء تک کاربن بننا یا پیدا ہونا ختم ہو جائے مگر رپورٹ کہتی ہے کہ ۲۰۲۰ء کے مقابلے ۲۰۲۴ء میں اس کا کاربن پیدا ہونا ۳۰؍ فیصد بڑھ گیا ہے۔

The heat this time is reminiscent of hell. The reason is the high production of carbon.
اس بار کی گرمی جہنم کی یاد دلا رہی ہے۔ وجہ ہے کاربن کی زیادہ پیداوار۔

یہ خبر تو بار بار آچکی ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ پیداوار سے گلیشیر (پہاڑوں پر جمی برف) پگھل رہی ہے۔ سمندر اور دریاؤں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے، بڑے شہروں تک کے جو ساحل سمندر پر آباد ہیں ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ موسم کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں مگر موسم میں ایسی تبدیلی کہ دھرتی، انسان اور چرند و پرند جھلسنے لگے ہیں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ شدید گرمی، حد سے زیادہ بارش اور ہڈیوں میں سوراخ کر دینے والا جاڑا تو ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے مگر اس بار کی گرمی جہنم کی یاد دلا رہی ہے۔ وجہ ہے کاربن کی زیادہ پیداوار۔ مائیکرو سافٹ نے چار سال پہلے یقین دہانی کی تھی کہ کمپنی کی کوشش ہے کہ ۲۰۳۰ء تک کاربن بننا یا پیدا ہونا ختم ہو جائے مگر ہوا یہ جس کی تصدیق مائیکرو سافٹ کی سسٹین ایبلٹی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے کہ ۲۰۲۰ء کے مقابلے ۲۰۲۴ء میں اس کا کاربن پیدا ہونا ۳۰؍ فیصد بڑھ گیا ہے۔ وجہ ہے اے آئی (مصنوعی ذہانت) جو بجلی بہت کھاتا ہے۔ اے آئی کے لئے بنائے گئے ڈیٹا سینٹر تو بجلی پیتے ہی ہیں اس کے بنائے جانے میں جو سیمنٹ، مائیکرو چپس اور اسٹیل استعمال ہوتی ہیں ان سے کاربن کی پیداوار اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اتنا دراز ہوگیا ہے کہ ۲۰۳۰ء تک اس کو روک پانا پہلے جتنا مشکل تھا اس کے مقابلے پانچ گنا زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ مائیکرو سافٹ کے علاوہ گوگل اور میٹا کمپنیوں کی بجلی کھپت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اے آئی (مصنوعی ذہانت) بذات خود ایک مسئلہ ہے کہ اس سے فائدہ ہی نہیں نقصان بھی ہوتا ہے۔ اس سے جو جواب حاصل ہوتا ہے وہ ہمیشہ سچ نہیں ہوتا اور پھر زمین کو مزید گرم کر دیتا ہے۔
 اس سلسلے میں جو مزید اطلاعات دستیاب ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ موسم یا گرمی کا یہ قہر ’’زیادہ نفع اور روپے کماؤ‘‘ ذہنیت کا نتیجہ ہیں یعنی گرمی کا عذاب قدرت نے نہیں اپنے اور اپنے جیسوں پر خود انسان نے نازل کیا ہے۔ ہر بڑی کمپنی اپنی جیسی دوسری کمپنی کو مات دینا چاہتی ہے اس کے باوجود دنیا میں یہ کام کرنے والی جتنی کمپنیاں ہیں ان میں صرف ۲۴؍ فیصد ہی ڈیٹا محفوظ کرسکی ہیں۔ کمپنیوں کے علاوہ جو ڈیٹا محفوظ کئے گئے ہیں ان میں زیادہ تر فیک یا بائیٹر (جعلی یا جانبدارانہ، متعصبانہ) ہیں جبکہ کمپنیوں کو چاہئے بہت اچھے معیار کا ڈیٹا جو غیر جانبدارانہ اور غیر متعصبانہ بھی ہو۔ جو ڈیٹا اے آئی کے کام کا ہے وہ ۲۰۲۶ء میں ختم ہوسکتا ہے مزید مشکل یہ ہے کہ تیزی سے ڈیٹا ٹرانسفر (منتقلی) کے لئے مشیتیں کم ہیں۔ کئی کمپنیوں نے لائسنس کا نظام شروع کر دیا ہے۔ کئی ملکوں نے ڈیٹا لے جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس لئے اے آئی کمپنیوں میں ڈیٹا حاصل کرنے اور انہیں محفوظ رکھنے کا مقابلہ ہورہا ہے۔ اس مقابلے میں سبقت حاصل کرنے کے لئے گوگل نے چھوٹی کمپنیوں کو اپنی کمپنی میں ضم کر لیا ہے۔ اوپن اے آئی (Open AI) نیوز ایجنسیوں سے معاہدے کر رہا ہے۔ میٹا نے تو کسی تیسری پارٹی کے لئے ڈیٹا حاصل کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ مگر ابھی تک ایسی کوئی خبر نظر سے نہیں گزری ہے جس سے معلوم ہو کہ اے آئی کی کمپنیوں نے زمین اور زمین پر بسنے والوں کو اس عذاب سے بچانے کی کوئی تدبیر کی ہے یا ایسا احتیاطی قدم اٹھایا ہے جو زمین اور زمین پر بسنے یا زمین پر اُگے پیڑ پودوں پر بسیرا کرنے والی مخلوقات کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لے۔
 ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسمان سے شعلے برس رہے ہیں اور زمین آگ اگل رہی ہے اور جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب انسان کا کیا دھرا ہے تو بے حسی کے سبب اشک ندامت بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ پانی کا بھی عجیب مسئلہ ہے۔ یہ اوپر سے گرے تو بارش، آنکھ سے گرے تو آنسو، زمین سے ابلے تو چشم، غیر محسوس طریقے سے اپنی راہ بنا لے تو کنواں، دریا، آب رواں کہا جاتا ہے، جم جائے تو برف، اڑ جائے تو بھاپ، جسم سے بہہ جائے تو پسینہ کہلاتا ہے مگر عذاب کی صورت میں اس کی ہر شکل عذاب ہے۔ اس سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ اشک ندامت اس عزم کے ساتھ بہے کہ انسان جو غلطیاں کرتا رہا ہے یا مسلسل کر رہا ہے ان کی تلافی کرے گا مگر افسوس کہ اشک ندامت اب ہے ہی نہیں۔
 یہ صحیح ہے کہ اے آئی نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں مثلاً ۲۰۱۹ء تک ممبئی ریلوے قانون توڑنے والے صرف ۱۵؍ فیصد لوگوں کی ہی شناخت کر پاتا تھا مگر ۲۰۲۳ء میں اس نے یہ فیصد بڑھا کر ۴۰؍ کر لیا ہے۔ یہاں فیشیل رکاگنشن سسٹم یعنی چہرے کی پہچان کرنے والے نظام کا فائدہ اٹھا کر آنکھوں کے درمیان کی دوری سمیت تمام فیچر اکٹھے کئے جاتے ہیں اور پھر انہیں ڈیٹا بیس میں اسٹور کر دیا جاتا ہے۔ جب کوئی عادی مجرم ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوتا ہے تو یہ نظام اس چہرے کو ڈیٹا بیس میں ڈھونڈ کر پیٹرولنگ اسٹاف کو ہوشیار کر دیتا ہے۔ کیمبرج یورنیورسٹی نے ایک ایسا فیشیل رکاگنشن سسٹم بھی ایجاد کیا ہے جو ڈھکے ہوئے چہروں کو بھی پہچان لیتا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کا تجزیہ کرنے والے ایڈوانسڈ سسٹم نے یہاں تک کامیابی حاصل کی ہے کہ انسان کی حرکات و تاثرات کا بھی یعنی مٹھی بھینچنے، منہ بنانے، بھنویں سکوڑنے کا بھی مطلب نکال لیتا ہے۔ یہ سارے کام فائدے کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر برطانیہ نے حقائق پر مبنی ’اپروچ‘ کے ذریعہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ڈیٹا کا اکٹھا کیا جانا ہی اہم نہیں ہے یہ بارآور اس وقت ثابت ہوتا ہے جب جمع کئے ہوئے ڈیٹا کا صحیح استعمال بھی کیا جائے۔
 یہی اصل مسئلہ ہے۔ موسم کی تبدیلی پر ایجادات کا جو خراب اثر مرتب ہو رہا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے ایجادات کا صحیح استعمال بھی نہیں ہورہا ہے۔ موسم کے آگ اگلنے کا بھی یہی سبب ہے کہ ڈیٹا جمع کرنا تو مضر ثابت ہو ہی رہا ہے ڈیٹا کا صحیح استعمال نہ ہونا بھی ہلاکت کا باعث بن رہا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK