Inquilab Logo

افغان زلزلے کے مرکز کے آس پاس کےعلاقے مکمل طور پر تباہ

Updated: June 24, 2022, 11:30 AM IST | Agency | Kabul

گزشتہ دو دہائی کا مہلک ترین زلزلہ Iبستیاں کھنڈ ر میں تبدیل ہوگئی ہیں، ایک پورا گاؤں تباہ ہوگیا ، ایک بڑی تعداد امداد کی منتظر ہے، مکان کے ملبے پر بیٹھ کر آنسو بہانے والے بھی نظر آرہے ہیں ، بارش اور وسائل کی کمی سے امدادی کارروائی میںشدید دشواری ہورہی ہے۔بہت سےا فراد اب بھی ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ افغان طالبان نے عالمی بر ادری سےا مداد کی اپیل کی ہے

Searching for survivors in a village in Guyana..Picture:AP/PTI
گیا ن کے ایک گاؤں میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش۔ تصویر: اےپی /پی ٹی آئی

افغان  زلز لے کے مرکز کے آس پاس کے  علاقے تباہ ہوچکے ہیں۔وہاں کی بستیاں کھنڈ ر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ایک بڑی تعد اد اپنے مکان کے ملبے  پر بیٹھی آنسو بہاتی نظر آر ہی  ہے۔  ان کی بھر پور مدد نہیں کی جارہی ہے۔ ادھر حکومت کی جانب سے زلزلے سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ، حالانکہ بارش اور  وسائل کی کمی سے امداد ی کارروائی میں دقت ہورہی ہے۔ اسی دوران طالبان نے بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔ واضح رہےکہ تباہ کن زلزلے سے ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور بہت سے افراد اب بھی ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
 وسائل ناکافی 
  افغانستان پہلے ہی سے شدید انسانی اور اقتصادی بحران کا شکار رہا ہے اور گزشتہ روز کے تباہ کن زلزلے سے حالات مزید بد تر ہو گئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں جاری ہیں  لیکن نا کافی وسائل کے سبب یہ کام بہت مشکل ہو گیا ہے اور بہت سے علاقوں تک ابھی رسائی نہیں ہو پائی ہے۔
 امدادی کارروائی میں مشکلات 
 حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں میں موسلا دھار بارش اور وسائل کی کمی کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں  مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا  ہے۔ طالبان کے ایک  سینئر اہلکار عبدالقہار بلخی نے کہا کہ حکومت، مالی طور پر عوام کی اس حد تک مدد کرنے سے قاصر ہے جتنی  اس کی ضرورت ہے۔  انہوں نے اس مشکل وقت میں بین الاقوامی برادری سے امداد کرنے کی اپیل کی۔
 عبدالقہار بلخی کا مزید کہنا تھا کہ امدادی ایجنسیاں، پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتیں اس وقت مدد بھی کر رہی ہیں لیکن انہوں نے کہاکہ اس امداد کو بہت زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک تباہ کن زلزلہ ہے جس کا تجربہ ملک نے گزشتہ کئی دہائیوں میں نہیں کیا تھا۔ادھر اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو غطریس نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ اس تباہی  سے متعلق `مکمل طور پر متحرک ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام نے بتایا ہے کہ صحت سے متعلق ٹیمیں، طبی ساز و سامان، خوراک اور ہنگامی طور پر رہائش کا انتظام کرنے کے لئے دیگر سامان زلزلہ زدہ علاقے کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے۔
 ایک دہائی میں۷؍ سے زائد افراد ہلاک
 اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران ملک میں زلزلوں سے۷؍ ہزار  سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زلزلے سے سالانہ اوسطاً۵۶۰؍ اموات ہوتی ہیں۔   رواں برس جنوری میں بھی ملک کے مغربی حصے میں یکے بعد دیگرے آنے والے زلزلوں میں۲۰؍ سے زیادہ افراد ہلاک اور سیکڑوں مکانات تباہ ہو گئے تھے۔بدھ کو بھی افغانستان میں ۶ء۱؍ شدت کے تباہ کن زلزلے نے زبردست تباہی مچائی۔ اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ک ہلاک  ہونےکی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ کم سے کم ایک ہزار ۵۰۰؍ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
کچے مکان کے ملبے میں اب بھی لوگ دبے ہیں
 زلزلے کی وجہ سے مٹی سے بنے بہت سے مکانات تباہ ہو گئے جس کے ملبے کے نیچے ابھی تک نامعلوم تعداد میں افراد دبے ہوئے ہیں۔ جنوبی مشرقی صوبہ پکتیکا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں اقوام متحدہ کا ادارہ رہائش کیلئے فوری طور پر خیموں اور خوراک جیسی امداد فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔زلزلے کے مرکز کے آس پاس والے علاقے مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیںجہاں بہت سے دیہات، تباہ شدہ سڑکیں اور موبائل فون کے ٹاورز کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کی حالت دیکھ کر خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔
طالبان کیلئے چیلنج
 گزشتہ دو دہائی کے بعد ملک میں آنے والا یہ مہلک ترین زلزلہ ہے جو طالبان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔  زلزلے کا مرکز خوست شہر سے تقریباً۴۴؍ کلومیٹر دور تھا لیکن اس کے جھٹکے ہندوستان اور پاکستان  کے بھی کئی علاقوں تک محسوس کئے گئے۔ اب تک سب سے زیادہ ہلاکتیں پکتیکا کے گیان اور برمل اضلاع میں ہوئی ہیں جہاں گیان کا ایک پورا گاؤں ہی تباہ ہو گیا ہے۔ زلزلے کے بعد موبائل فون کے ٹاورز کو شدید طور پر نقصان پہنچنے کی وجہ سے مواصلات میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔افغانستان اس خطے میں واقع ہے جہاں  زلزلے آتے رہتے ہیں۔ تکنیکی طور پر یہ چمن فالٹ، ہری رود فالٹ، وسطی بدخشاں فالٹ اور درواز فالٹ  کے ساتھ ساتھ دیگر فالٹ لائنوں کے خطے میں واقع ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK