• Thu, 05 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بدایوں کی ۸۰۰؍ سال پرانی جامع مسجد پر بھی دعویٰ

Updated: December 04, 2024, 1:27 PM IST | Yameen Ansari/Inquilab News Network | New Delhi/ Budaun

سول کورٹ میں سماعت، ہندو فریق نے مسجد کی جگہ پر نیل کنٹھ کا مندر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے بھی مندر ہونے کا دعویٰ ،محکمہ آثار قدیمہ کو خط۔

The historic Jama Masjid Shamsi located in Badayan, which has been declared a national heritage by the Department of Archaeology. Photo: INN
بدایوں میں واقع تاریخی جامع مسجد شمسی جسے محکمہ آثار قدیمہ قومی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ تصویر: آئی این این

ملک میں قدیم مساجد اور درگاہوں کے خلاف مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں اور جان بوجھ کر  تنازعات پیدا  کئے جا رہے ہیں۔ فرقہ پرستوں کا یہ طوفان بدتمیزی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔  فرقہ پرستوں نے  اتر پردیش کے تاریخی شہر بدایوں کی  ۸؍ سو سال سے زیادہ  قدیم مسجد پر جو دعویٰ کیا ہے اس کے معاملے میں ضلع عدالت میں منگل کو سماعت ہوئی اور اس کی وجہ سے پورے ضلع میں حالات کافی کشیدہ رہے۔ تازہ سماعت کے بعد چونکہ دلائل مکمل نہیں ہوئے تھے اس لئے معاملہ ۱۰؍ دسمبر تک ملتوی کردیا گیا  ہے۔
معاملہ کیا ہے ؟
 پڑوسی ضلع سنبھل میں ہنگامہ اور تشدد کے بعد اب سب کی نظریں بدایوں پر مرکوز ہیں۔ستمبر ۲۰۲۲ء میں مقامی عدالت میں بدایوں کی اس تاریخی جامع مسجد کو نیل کنٹھ مہاویر کا مندر بتاتے ہوئے بھگوا تنظیموں نے مقدمہ دائر کیا تھا اورسول کورٹ نے اس عرضی کومنظور کرلیاتھا۔  اس کے بعد جامع مسجد کمیٹی نے اپنا اعتراض داخل کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی کہ اس عرضی کو خارج کیا جائے کیونکہ یہ مقدمہ سماعت کے قابل ہی نہیں ہے۔ اسی سلسلہ میں عدالت میں منگل کو سماعت ہوئی۔  فی الحال عدالت میں یہ بحث چل رہی ہے کہ جامع مسجد پر ہندو فریق  کی عرضی  قابل سماعت ہے یانہیں ۔۱۰؍ دسمبر کو اس پر فیصلہ آسکتا ہے۔
وکلاء کا کیا کہنا ہے ؟
 ہندو فریق نے دعویٰ کیا ہے کہ بدایوں کی جامع مسجد نیل کنٹھ مندر ہے لیکن اس معاملے  کے وکیل ایڈوکیٹ اسرار احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ ہندو فریق کے دعوئوں میں کوئی سچائی نہیں ہےاور نہ ہی ان کا دعویٰ اتنا مضبوط ہے کہ مقدمہ کو آگے چلایا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پوری امید ہے کہ جلد ہی مقدمہ خارج ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیکڑوں برس سے مسلمان یہاں نماز ادا کرتے آرہے ہیں اور اس کی مالکانہ حیثیت بھی ہمارے پاس ہے۔ مسلم فریق کے مطابق جب صوفی مفکر اوربادشاہ شمس الدین التمش بدایوں آئے تھے تب انہوں نے یہاں پر  یہ مسجد بنوائی تھی۔   
ہندو فریق کا دعویٰ کیا ہے؟
در اصل ہندو فریق ریاستی محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ کے کتابچے ’سوچنا درپن‘ کےحوالے سے یہ باتیں کر رہا ہے جس میں اس تعلق سے کچھ باتیں تحریر ہیں۔یہ کتابچہ ۰۶۔۲۰۰۵ءمیں شائع ہوا تھا لیکن یہ تاریخی حوالہ نہیں ہے۔
اس مسجد کی اہمیت 
سلطان التمش کے ذریعہ تعمیر کردہ جامع مسجد شمسی کئی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی مساجد کی فہرست میں یہ ساتویں نمبر پر ہے۔تعمیری رقبہ کی مناسبت سے اسے ہندوستان کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اسے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے بھی قومی اہمیت کی حامل عمارت اورقومی ورثہ قرار دیا ہے۔
دہلی کی جامع مسجد پر بھی دعویٰ ؟
 سنبھل اور بدایوں کے بعد اب دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے سروے کا بھی مطالبہ کر دیا گیا ہے۔  ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر کو خط لکھ کر جامع مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے مندروں کے باقیات ہیں جنہیںبازیاب کروایا جانا چاہئے۔ اس لئے مسجد اور سیڑھیوں کا سروے ضروری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK