ہریانہ کے فریدآباد میں کارروائی سےمقامی مسلمانوں میں برہمی، میونسپل کارپوریشن نے دعویٰ کیا کہ مسجد جنگل کی زمین پرتھی جس پر تعمیری کام ممنوع ہے
EPAPER
Updated: April 16, 2025, 11:06 PM IST | New Delhi
ہریانہ کے فریدآباد میں کارروائی سےمقامی مسلمانوں میں برہمی، میونسپل کارپوریشن نے دعویٰ کیا کہ مسجد جنگل کی زمین پرتھی جس پر تعمیری کام ممنوع ہے
ہریانہ کے فرید آباد ضلع میں میونسپل انتظامیہ نے معاملہ عدالت میں زیر التواء ہونے کے باوجود دھاندلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۵۰؍ سال قدیم مسجد پر بلڈوزر چلادیا۔ انتظامیہ نے انہدامی کارروائی کیلئے ’’غیر قانونی تعمیرات‘‘ کا جواز پیش کیا ہے مگر مقامی افراد میں شدید برہمی اور مایوسی پھیل گئی ہے۔میونسپل انتظامیہکی اس کارروائی کے بعد بدکھل گاؤں میں کشیدگی پھیل گئی ہے۔
مقامی باشندہ ارمان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس کے بھاری بندوبست کے دوران کی گئی انہدامی کارروائی سے قبل پورے علاقے کو خالی کروالیاگیاتھا اور سخت وارننگ دی گئی تھی کہ کوئی بھی مسجد کے اطراف ۱۰۰؍ میٹر کے دائرہ کے اندر نہ آئے ورنہ سخت لاٹھی چارج کیا جائےگا۔صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں انہدامی کارروائی کیلئے پہنچنے والی میونسپل کارپوریشن کی ٹیم کے ساتھ پولیس کا بھاری بندوبست تھا جس میں ۲۵۰؍ جوان اور ۳؍ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس شامل ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق پہلے ’’غیر قانونی‘‘ قراردیکر ایک عمارت کا انہدام شروع کیاگیا اور پھر مسجد کو بھی شہید کردیاگیا۔
مقامی افراد نے برہمی کااظہار کرتےہوئے کہا ہے کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ مسجد سرکاری زمین پر ہے تاہم اس معاملے میں مقدمہ گزشتہ ۲۰؍ سے ۲۵؍ برسوں سے سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔ اس کارروائی کو اس نئے وقف ترمیمی قانون کے پس منظر میں بھی دیکھا جارہاہے جس کے مطابق اگر کسی وقف کی کسی زمین پر حکومت کا دعویٰ ہو اور اس طرح وہ متنازع ہوجائے تو کلکٹر کو اختیار ہے کہ وہ اسے سرکاری زمین قراردیدے۔ جس کالونی میں مسجد واقع تھی،اس میں رہنے والے مشتاق احمد نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ ’’ بدکھل گاؤں اور میونسپل کارپوریشن نے مسجد کی زمین پر دعویٰ پیش کیاتھا۔ اس سے قبل جب میونسپل کارپوریشن کے اہلکار اپنی زمین کے اطراف چہار دیواری کھڑی کرنے کیلئے پہنچے تھے تو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مسجد کو شہید نہیں کیا جائےگامگر آج اچانک اس مسجد کو نشانہ بنایاگیا۔‘‘گاؤں کے سابق سرپنچ راکا نے بتایا کہ ۶۰۰؍ سے ۷۰۰؍ گز زمین میں سے مسجد ۴۰x۸۰؍ اسکوائر فٹ میں بنی ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایاکہ ’’اس معاملے پر سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنے کیلئے گاؤں کے ۱۸-۱۷؍ لوگوں کی ٹیم بنائی گئی ہے۔‘‘
دوسری طرف میونسپل کارپوریشن نےتمام الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ یہ جامعی کالونی میں سرکاری زمین پر کی گئی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف معمول کی کارروائی تھی۔‘‘ میونسپل کارپوریشن کے قانونی مشیر ستیش اچاریہ نے بتایا کہ ’’ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یہاں ایکشن لیاگیاہے۔ یہ جنگ کی مختص زمین ہے جس پر تعمیری کام ممنوع ہے۔جن لوگوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کررکھا ہے،ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔‘‘