مودی حکومت کے تمام دعوئوں کی قلعی کھل گئی ،ان لوگوں کی بنیادی ضرورتیں بھی جیسے تیسے پوری ہو رہی ہیں
EPAPER
Updated: February 26, 2025, 11:03 PM IST | New Delhi
مودی حکومت کے تمام دعوئوں کی قلعی کھل گئی ،ان لوگوں کی بنیادی ضرورتیں بھی جیسے تیسے پوری ہو رہی ہیں
مودی حکومت نے ملک کی معیشت کا کیسا بیڑہ غرق کردیا ہے اس کا اندازہ ایک حالیہ رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک کی ۱۴۰؍ کروڑ کی آبادی میں سے ۱۰۰؍ کروڑ شہریوں کے پاس خرچ کرنے کیلئےپیسہ نہیں ہے۔ ان کی بنیادی ضرورتیں بھی جیسے تیسے پوری ہورہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی معیشت کا پورا دارو مدار صرف ۱۰؍ فیصد آبادی یعنی تقریباً ۱۴؍ کروڑ لوگوں پر ہے۔ ایسے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ معیشت بہتر کیوں نہیں ہو رہی ہے اورکھپت میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا ہے۔
معروف وینچر کیپٹل کمپنی بلوم وینچرز کی جانب سے جاری کردہ ’انڈس ویلی‘ سالانہ رپورٹ یہ سنسنی خیز انکشافات کئے گئے ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کی معاشی ترقی اور صارفین کی کھپت بنیادی طور پر صرف امیر طبقے کی مرہون منت ہے۔ رپورٹ کے مطابق، خرچ کرنے والی یہ کلاس وسیع ہونے کے بجائے گہری ہو رہی ہےیعنی امیر مزید امیر ہو رہے ہیں جبکہ غریب طبقے کی معاشی حالت مزید خراب ہورہی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں وہ طبقہ جو باقاعدگی سے اشیاء اور خدمات پر خرچ کرتا ہے اس کی تعداد صرف ۱۳؍ سے ۱۴؍کروڑ ہے جو کہ میکسیکو کی آبادی کے برابر ہے۔
اس عدم مساوات کی وجہ سے ہندوستانی مارکیٹ میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ کمپنیاں اب عوامی سطح کے سستے پراڈکٹس کے بجائے مہنگی اور پریمیم مصنوعات پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ اسی رجحان کی جھلک موبائل فون مارکیٹ میں بھی نظر آتی ہے جہاں مہنگے فونز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بنیادی ماڈلز کی فروخت میں بھاری کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح لگژری ہاؤسنگ ، برانڈیڈ اشیاء اورتجرباتی معیشت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مہنگے تفریحی پروگرام جیسے کہ عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں کولڈ پلے اور ایڈ شیران کے کنسرٹس کی مہنگی ٹکٹیں چند منٹوں میں فروخت ہورہی ہیں جو اس تبدیلی کی واضح مثال ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں معاشی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں ہندوستان کے امیر ترین ۱۰؍ فیصد افراد مجموعی قومی آمدنی کا ۳۴؍ فیصدحصہ رکھتے تھے جو ۲۰۲۵ءمیں بڑھ کر ۵۷؍ فیصد سے زائد ہو گیا ہے۔ دوسری جانب ملک کی نچلی سطح کی ۵۰؍ فیصد آبادی کا قومی آمدنی میں حصہ ۲۲؍فیصد سے گھٹ کر محض ۱۵؍ فیصد رہ گیا ہے۔
اس رپورٹ میںیہ بات بھی واضح ہوئی ہےکہ ہندوستان میں گزشتہ ۱۰؍ سال کے دوران صارفین کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور یہ کئی عالمی معیشتوں سے آگے نکل چکا ہے لیکن فی کس آمدنی کے لحاظ سے ہندوستان چین سے اب بھی ۱۳؍ سال پیچھے ہے۔
بلوم وینچرز نے اس صورتحال کو مزید سمجھنے کے لئے جن ماہرین سے گفتگو کی انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستانی معیشت میں یہ رجحان برقرار رہا تو عوام کی قوتِ خرید مزید کمزور ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے معیشت کا انحصار صرف امیر طبقے پرہو جائے گا جو کہ ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ یہ امیر بھی کھپت میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تیزی کے ساتھ غریب ہو جائیں گے ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کی معاشی پالیسیاں اس عدم مساوات کو کم کرنے میں کامیاب ہوں گی، یا پھر مارکیٹ کی توجہ صرف امیر طبقے کی ضروریات پوری کرنے پر مرکوز رہے گی؟