• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مولانا رابع حسنیندوی کا انتقال عالم اسلام کا نقصان

Updated: April 17, 2023, 10:40 AM IST | Agripara

آگرہ پاڑہ میں واقع سہاگ پیلیس میںمنعقدہ تعزیتی اجلاس میں علماء ،مسلم پرسنل لاءبورڈ کے اراکین اور دیگر شخصیات کااظہارِخیال

The scene of the condolence meeting held for Maulana Syed Muhammad Rabey Hasani Nadwi
مولانا سیّد محمدرابع حسنی ندوی کیلئے منعقدہ تعزیتی اجلاس کا منظر۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدراوردارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی کے انتقال پرسنیچر کی شب میںتراویح کی نماز کے بعدسہاگ پیلیس میںتعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اس میںعلماءنے مولانا کے محاسن ،ان کے علمی کارناموں اورانتظامی امور سے متعلق ان کی خدمات کو یادکیا اوران خدمات کوناقابل فراموش قراردیا۔
  دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے رکن شوریٰ مولانا محمد ابراہیم ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’مولانا رابع حسنی ندویؒ انتہائی متواضع، خلیق، ملنسار اور متقی و پرہیزگار تھے۔ وہ ندوہ سے ایک روپیہ بھی تنخواہ نہیں لیتے تھے، حتیٰ کہ کھانا بھی اپنے گھر سے منگواکر کھاتے تھے اور مہمانوں کیلئے بھی اپنے گھر سے ہی کھانے کا انتظام کرتے تھے۔ ندوہ کی تعمیر و ترقی کیلئے وہ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ان کا انتقال عالم اسلام کا بڑا خسارہ ہے۔‘‘مفتی حذیفہ قاسمی نے کہا کہ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒحسب ونسب، علم وعمل میں ممتاز تھے، وہ جتنے عظیم انسان تھے اتنے ہی عظیم رہنما اور مربی تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمہ جہت صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ بہترین منتظم، اعلیٰ دماغ رہنما تھے۔ ان کا انتقال صرف ایک طبقے کا نقصان نہیں بلکہ عالم اسلام کا عظیم خسارہ ہے۔‘‘ 
 انجمن اسلام ممبئی کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ ’’گزشتہ ۱۰؍برس میں ملک کے حالات جتنے خراب ہوئے اس نازک دور میں مولانا رابع نے پرسنل لاء بورڈ کو جس طرح جوڑ کر رکھنے کا کارنامہ انجام دیا ہے، وہ انہی کے عظیم تدبر اور اعلیٰ ظرفی کا نمونہ تھا۔ ہم نے بہت قریب سے محسوس کیا کہ انہوں نے نازک سے نازک ترین حالات میں بھی امت مسلمہ کو مایوس ہونے نہیں دیا بلکہ انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ بورڈ کے کاموں کو آگے بڑھانے اور اس کو مضبوط کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔‘‘سرفراز آرزو نے کہا کہ ’’جب بابری مسجد کا فیصلہ آیا تو اس وقت امت میں ایک طرح کا انتشار پایا جاتا تھا، ملک کی پوری مسلم برادری پریشان تھی کہ اب آگےکیا ہوگا، ہر شخص کی نگاہ بورڈ کے صدر کی جانب لگی ہوئی تھی ایسے میں آپ کا پیغام بہت ہی واضح اور مسلمانوں کو صبر و سکون بخشنے والا تھا اور آپ نے اپنے پیغام سے مسلمانوں کو یہ بتادیا کہ ہم مورچہ ضرور ہارے ہیں لیکن جنگ ہم نے ہی جیتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم خان نے کہا کہ’’ امت میں اختلاف تو بہت ہے لیکن آپ کی شخصیت ایسی عالی تھی کہ امت کے ہر فرد کیلئےآپ قابل قبول تھے اور ہر جماعت کے لوگ آپ کی قیادت پر متفق تھے اور اطمینان و سکون سے آپ کی قیادت میں کام کرنے کو تیار تھے۔‘‘ دارالعلوم امدادیہ ممبئی کے صدر مفتی سعید الرحمٰن فاروقی قاسمی نے کہا کہ’’ آپؒ  مفکر اسلام حضرت علی میاں ندویؒ کے سچے جانشین تھے، آپ کی حیثیت ہر اعتبار سے کامل و مکمل تھی، آپ جہاں ایک طرف بہترین منتظم تھے وہیں آپ ایک مثالی استاذ بھی تھے۔‘‘  مولانا نظام الدین فخرالدین ،ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالہ، قاری محمد صادق خان،جمعیۃ اہل حدیث مہاراشٹر کے نائب صدر عبدالجلیل سلفی، مولانا شمیم اختر ندوی، مولانا رئیس احمد ندوی بھیونڈی، مولانا راشد اسعد ندوی اور سعیداحمد خان وغیرہ نے بھی اظہارِخیال کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK