عوامی تاثرات۔کسی نے اس فیصلہ کو کرناٹک الیکشن کے نتائج کی بوکھلاہٹ قرار دیا تو کسی نے اسے ڈکٹیٹر شپ کہا۔
EPAPER
Updated: May 21, 2023, 11:40 AM IST | Mumbai
عوامی تاثرات۔کسی نے اس فیصلہ کو کرناٹک الیکشن کے نتائج کی بوکھلاہٹ قرار دیا تو کسی نے اسے ڈکٹیٹر شپ کہا۔
: ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی) کی جانب سے جمعہ ۱۹؍ مئی کی شام ۲؍ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے اور انہیں ستمبر۲۰۲۳ء تک بینکوں میں جمع کرنے کی ہدایت جاری کی۔ اس اعلان کے بعد ایک بار پھر شہریوں میں تشویش پیدا ہوگئی ہے اور ان کے ذہنوں میں نوٹ بندی کی کیفیت تازہ ہو گئی ہے۔ آر بی آئی کے اس فیصلے کے تعلق سے انقلاب نے چند افراد سے رابطہ قائم کیا اور ان کے تاثرات معلوم کئے۔ اکثریت شہریوں نے یہی تاثرات دیئے کہ حکومت کایہ فیصلہ پیسوں کاضیاع اورعوام کیلئے مصیبت کا باعث ہے۔ اس فیصلے سے حکمرانوں کی ڈکٹیٹر شپ بھی ظاہر ہوتی ہے۔
مورلینڈروڈ ، شیرین بائی چال کے بیگ کا کاروبار کرنے والے ابرار شیخ نےکہا کہ ’’اچانک نوٹ بندی کا اعلا ن ہونے سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ اس سےقبل ایک ہزارکی نوٹ جب بندکی گئی تھی۔ اس کا منفی اثر اب بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔یہ حکومت کب کیا کرے گی کہا نہیں جا سکتا۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور معاشی بحران کے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانےکیلئے حکومت اب ۲؍ ہزارکا نوٹ بند کرنے کا اعلان کرکے عوام کے توجہ کوان مسائل سےہٹانے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
کم عرصہ کیلئے نوٹ بند کرنے کی مثال نہیں ملتی!
شمیم خان نے کہا کہ’’ ۲؍ہزارروپے کا نوٹ بند کرنے کا بغیر سوچے سمجھے حکومت کا فیصلہ عوام کے پیسوں کا ضیاع اور انہیں مصیبت میں ڈالنے والا ہے۔ اس سے حکومت کا کیا مقصد ہے اورکیا ہدف مقرر کیاگیا ہے،سب کچھ اندھیرے میں ہے۔یہ بھی سمجھ میںنہیںآرہا ہےکہ مودی حکومت نے دو ہزارکےنوٹ اتنے کم عرصے کیلئے کیوں جاری کئے، اس سے قبل ایسی مثال نہیںملتی ہے۔‘‘
انہوں نےیہ بھی کہا کہ ’’اس سے قبل کی گئی نوٹ بندی عوام کیلئے بڑی آفت ثابت ہوئی تھی اور حکومت کے دعوے کے برخلاف کوئی بھی فائدہ اس غلط فیصلے سے حاصل نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ کئی لوگ اپنی ہی رقم نکالنے کے چکر میں ضرور دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کی کمر توڑنے اوربلیک منی ختم کرنے کا ببانگ دہل اعلان کیا تھالیکن آربی آئی نے اس کی وضاحت کر دی تھی کہ ۹۹؍فیصد نوٹ بینکو ں میں واپس آ گئے۔اب ۲؍ہزارکےنوٹ کے تعلق سے بھی یہی کچھ ہوگا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اعلان سے قبل ہی بڑی حد تک ۲؍ ہزار کے نوٹ بینکوں سے غائب ہیں؟ یہ نوٹ کہاں گئے، اس کاپتہ لگانے کی ضرورت ہے ۔‘‘
مٹھائی کی دکان چلانے والے عبیر احمد چودھری نے کہا کہ ’’۲؍ہزارکا نوٹ بینکوں میںجمع کرانے کا فرمان جاری کیا گیاہے۔اس سے کچھ لوگ گھبرا گئے ہیںاوروہ یہ سمجھ رہے ہیںکہ شاید ۲؍ہزارکے نوٹ اب نہیںچلیںگے۔ ہم توقبول کررہے ہیںاورکوئی مسئلہ نہیں ہے ۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ’’ ایک سچائی یہ ہےکہ نامعلوم کس وجہ سے پہلے بھی بہت کم ہی ۲؍ ہزار کے نوٹ دکھائی دیتے تھے ۔۲؍ہزارکے نوٹ کہاںغائب ہو گئے اوراب اسے بینکو ںمیںجمع کرانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے ، سمجھ میںنہیںآرہا ہے ۔لیکن ایسا لگتا ہےکہ عوام کو اس سے زیادہ پریشانی نہیں ہوگی، ہاں یہ ممکن ہے کہ جن لوگوں نے جمع کیا ہو خواہ وہ سفید یا سیاہ ، ان کے لئے مسئلہ ہو۔‘‘
کرناٹک الیکشن کی بوکھلاہٹ ہے
میراروڈ کی ایک خاتون خانہ نے کہاکہ ’’کرناٹک الیکشن کے نتائج نے وزیر اعظم نریندر مودی کو زبردست صدمہ پہنچایاہے جس کی بوکھلاہٹ میں انہوںنے ۲؍ہزار کا نوٹ بند کرنے کا اعلان کروایا ہے۔اس فیصلہ کے ذریعے دراصل آنےوالے دنوں میں مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوںمیں ہونےوالے الیکشن اور ۲۰۲۴ء کا پارلیمانی الیکشن کی تیاری کئے جانےکا اشارہ مل رہا ہے لیکن اب ماحول بدل رہاہے ۔ اس لئے مودی جی لاکھ کوشش کرلیں عوام ان کے جھانسے میں نہیں آنے والے ہیں۔ ‘‘
محض ڈکٹیٹر شپ چل رہی ہے!
اس ضمن میں ممبرا سے تعلق رکھنے والے شعیب ندوی(ٹراویل ایجنٹ) نے اپنے تاثرات دیتے ہوئے کہاکہ’’ مودی حکومت دراصل ڈکٹیٹر شپ کر رہی ہے اور ان کا یہی رویہ ہے کہ ہم جو چاہتے ہیں وہیں کریں گے اور ہمیں کسی کی پرواہ نہیں۔ نوٹ بندی کرتے وقت بھی کئی جواز پیش کئے گئے تھے کہ دہشت گردی بند ہوگی، بدعنوانی اورکالا بازاری ختم ہو گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔‘‘
انہوںنے مزید کہا کہ’’۲؍ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کر کے انہوںنے یہ بھی ثابت کردیا گیا کہ ہزار روپے کی نوٹ بند کر کے انہوں نے جو ۲؍ہزار روپے کے نوٹ جاری کئے تھے وہ فیصلہ بھی غلط تھا۔ اس مرتبہ فرق صرف اتنا ہوا ہے کہ ۲؍ ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا اعلان ریزرو بینک آف انڈیا( آر بی آئی ) کے ذریعے کیا گیا ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ مرکزی ایجنسیاں بھی کس طرح مرکزی حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ یہ فیصلہ عوام کو پریشان کرنے والا ہے۔
شعیب نے مزید کہا کہ موجودہ مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے اور انہیں الجھائے رکھنے کیلئے یہ اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ جس طرح کرناٹک کے عوام نے انتخابات میں مودی سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اسی طرح دیگر ریاستوں کے عوام بھی بی جے پی کے خلاف الیکشن میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے ۔