منوج جرنگے نے کہاکہ ضابطہ اخلاق کا نفاذ ختم ہوتے ہی دوبارہ مراٹھا تحریک چھیڑی جائے گی، دیویندر فرنویس کو نسل پرست قرار دیا
EPAPER
Updated: November 13, 2024, 10:40 PM IST | Jalna
منوج جرنگے نے کہاکہ ضابطہ اخلاق کا نفاذ ختم ہوتے ہی دوبارہ مراٹھا تحریک چھیڑی جائے گی، دیویندر فرنویس کو نسل پرست قرار دیا
مراٹھا سماجی کارکن منوج جرنگے کا کہنا ہے کہ مراٹھا ریزرویشن کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ضابطہ اخلاق کا نفاذ ختم ہوتے ہی وہ دوبارہ مراٹھا ریزرویشن کی تحریک شروع کریں گے۔ چاہے حکومت مہا وکاس اگھاڑی کی بنے یا مہایوتی کی بنے۔مراٹھا سماجی کارکن نے ایک انگریزی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میںیہ بات کہی۔جرنگے نے اس انٹرویو میں دیویندر فرنویس کو نشانہ بناتے ہوئےانہیں نسل پرست قرار دیا۔
یا د رہے کہ گزشتہ سال ڈیڑھ سال سے ریزرویشن کی تحریک چلانے والے منوج جرنگے اسمبلی الیکشن میں مراٹھا سماج کے امیدوار کھڑا کرنا چاہتے تھے۔لیکن مسلم او ر دلت سماج کی جانب سے مناسب ساتھ نہ ملنے کی بنا پر انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ مراٹھا ریزرویشن کی تحریک وہ جاری رکھیں گے۔جرنگے کا کہنا ہے کہ ’’ غوروخوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک سماج کے دم پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔ لہٰذا یہ ضروری تھا کہ دلتوں اور مسلمانوں کو بھی متحد کیا جاتا لیکن ان دونوں سماج کے نمائندوں سے گفتگو کرنے کے بعد مجھے لگا کہ میری کوششوں کے باوجود ایسا ہو نہیں رہا ہےاسلئے میں نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ منوج جرنگے نے اپنا فیصلہ اس لئے بدل لیا کہ انہیں کسی کا فون آیا تھا۔ اس سوال پر جرنگے نے کہا کہ مجھے کسی کا فون نہیں آیا۔ حکومت کے پاس آئی بی ہے۔ تفتیش کے ذرائع ہیں۔ وہ معلوم کر لے کہ کیا مجھے کسی کا فون آیا تھا یا نہیں۔
انٹرویو میں جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کے فیصلے ( الیکشن نہ لڑنے کے )سے کسے فائدہ ہوگا تو جرنگے نے کہا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ کسے فائدہ ہوگا یا کسے نقصان مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ الیکشن مہایوتی جیتے یا مہا وکاس اگھاڑی۔لیکن اب آگے منوج جرنگے کا کیا منصوبہ ہے؟ اس سوال پر مراٹھا کارکن نے کہا ’’ابھی ریزرویشن کی لڑائی ختم نہیں ہوئی ہے ۔ میری جان اس وقت ریزرویشن میں پھنسی ہوئی ہے۔ جب ریزرویشن مل جائے گا تب سوچا جائے گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ ‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ ’’ میں اپنا احتجاج صرف اسلئے روک دیا تھا کہ ضابطہ ٔ اخلاق نافذ ہو گیا تھا۔ جیسے ہی ضابطہ اخلاق کا نفاذ ختم ہو جائے گاویسے ہی ہم اپنا احتجاج دوبارہ شروع کریں گے پھر چاہئے مہایوتی کی حکومت قائم ہو یا مہا وکاس اگھاڑی کی۔منوج جرنگے سے مختلف لیڈروں کے تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی لیڈر مراٹھا سماج سے بڑا نہیں ہے۔ سب سے بڑا سماج ہے۔
اخبار نے پوچھا کہ ’’کہا جاتا ہے کہ شرد پوار سب سے بڑے مراٹھا لیڈر ہیں؟ تو جرنگے نے جواب دیا کہ اگرایسا ہے تو وہ مراٹھا سماج کو ریزرویشن کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ اور ایکناتھ شندے؟ جرنگے کا جواب تھا ’’ وہ سب ایک جیسے ہیں۔‘‘ جب مراٹھا کارکن سے دیویندر فرنویس کے تعلق سے سوال کیا گیا جن پر وہ کئی بار تنقید کر چکے ہیں تو انہوں نے جواب دیا ’’ دیویندر فرنویس نسل پرست ہیں۔ وہ کبھی مراٹھا سماج کو ریزرویشن نہیں دیں گے۔ نہ ہی وہ مسلم، دھنگر،اور لنگایت سماج کو ان کا حق دینے کی بات کریں گے۔‘‘ انہوں نے دیویندر فرنویس کو مراٹھا ریزرویشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔