Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

حافظ محمدفرید کے خانوادے میں حفاظ کی چوتھی نسل

Updated: March 27, 2025, 9:55 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

۴۰؍سال سے تراویح پڑھا رہے ہیں۔ تدریسی خدمات اور اب سفارتی ذمہ داری اداکرنے کےباوجود تراویح کا معمول برقرار ہے۔ سعودی عرب میں ملازمت کے دوران بھی تراویح کا سلسلہ ترک نہیں کیا ۔ ان کےمطابق چندے کی وصولی کے دوران ممبئی میں الگ الگ مساجد میں تراویح پڑھنے کا موقع ملتا ہے

Hafiz Muhammad Farid is busy reciting.
حافظ محمدفرید تلاوت میں مصروف ۔

افظ محمدفرید کے خانوادے میں حفاظ کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔وہ ۴۰؍ سال سے تراویح پڑھا رہے ہیں۔ تدریسی خدمات اور اب سفارتی ذمہ داری اداکرنے کےباوجود تراویح کا معمول برقرار ہے ۔ خاص بات یہ ہےکہ  سعودی عرب میں ملازمت کے دوران بھی تراویح کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔
 ۵۴؍سالہ حافظ محمدفرید ضلع رام پور کے قصبہ ٹانڈہ بادلی میںواقع مدرسہ ارشادالعلوم سے وابستہ ہیں ۔ اسی مدرسہ میں۱۲؍سال کی عمر میںحفظ مکمل کیا تھا۔ ۱۹۸۱ء میں۱۴؍ سال کی عمر میںپہلی تراویح اپنے قصبے ٹانڈہ بادلی کی جامع مسجد میںپڑھائی تھی۔ امسال دہلی کے مصطفےٰ آباد علاقے کی گلی نمبر ۱۸؍ میںایک عمارت میں ۱۰؍ روزہ تراویح پڑھائی۔ اس کے علاوہ کئی سال دہلی، بنگلور اور دیگر مقامات پرپڑھانے کے علاوہ سعودی عرب میں ملازمت کے لئے۳؍ سال مقیم رہے لیکن تراویح کا اہتمام یہاں بھی جاری رہا۔ یہاں ورکشاپ میں ملازمین ان کی اقتداء میں تراویح ادا کرتے تھے۔ 
 مذکورہ ادارہ میں شعبۂ حفظ میںان کے استاذ حافظ مولانا سید حامدعلی شیروانی تھے،جو اب بھی بقید حیات اور مذکور ادارے سے وابستہ ہیں۔ حافظ محمدفرید کے دادا عبدالمجید زبردست حافظ قرآن تھے اوران کے والد مرحوم حافظ عبدالرشید کا بھی جید حفاظ میںشمار ہوتا تھا۔اب اپنی چھوٹی بیٹی کو حفظ شروع کرایا ہے، وہ اسکول کی تعلیم بھی حاصل کررہی ہے۔ اس طرح یہ چوتھی نسل قرآن کریم کے حاملین میں شامل ہورہی ہے۔کوشش کی جارہی ہے کہ یہ خاندا ن آئندہ بھی حفاظ سے خالی نہ رہے اوریہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا رہے۔ 
 حافظ محمدفرید کے ۵؍بھائیوں میں ایک عالم اور ایک حافظ قرآن ہیں۔انہوں نے مذکورہ ادارے میں ۱۵؍ سال تدریسی خدمات انجام دیںاور ۵؍سال سےسفارت کررہے ہیں۔ یہ ادارے کی برکت ہے کہ ٹانڈہ بادلی کے بیشتر گھرانوں میں علماء اور حفاظ موجود ہیں۔
 حافظ فرید نے اپنے تجربے کی روشنی میں بتایا کہ’’ مالی فراہمی کےسبب تراویح چھوٹ جانے یا ترتیب کے ساتھ نہ پڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے اس لئے ہرسال رمضان المبارک میں سفرکرنے سے قبل تراویح پڑھاکر ممبئی کا رخ کرتے ہیںتاکہ کم ازکم ایک سنت (پورا قرآن کریم سننا )پر تو اہتمام سے عمل ہوجائے۔ اکثر سفراء کے ساتھ یہی مسئلہ رہتا ہے۔ ایک جانب یہ خیال رہتا ہےکہ مدرسہ کامالی نقصان نہ ہو تو دوسری جانب قرآن کریم سنانے کا ناغہ نہ ہو، اس جانب بھی توجہ رہتی ہے۔‘‘ 
 حافظ فرید کے مطابق ’’چندے کی وصولی کے دوران ممبئی میں الگ الگ مساجد میں تراویح پڑھنے کا موقع ملتا ہے ۔اس میںسیکھنے کو بھی ملتا ہے کہ ممبئی میںکس طرح حفاظ پڑھاتے ہیں اور ہم لوگوں کے پڑھنے کا انداز کیسا ہے، اس طرح احتساب کا بھی مو قع ملتا ہے ۔‘‘
  انہوں نے مزید کہا کہ’’ویسے یہ محسوس ہوا کہ بیشترجگہوں پربہت تیزپڑھا جاتاہے جبکہ ایسا نہیںہوناچاہئے کیونکہ قرآن کریم پڑھنے کےتین انداز متعین کئےگئے ہیں۔ حدر (قدرے روانی سے پڑھنا )، تدویر (نہ بہت تیزنہ بہت اطمینان سے بلکہ اعتدال سے پڑھنا ) اور ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کرپڑھنالیکن دیکھنے میںآتاہے کہ ان تینو ںپر بمشکل عمل ہوتا ہے، بیشتر جگہوں پرتیز پڑھاجاتا ہے اور کچھ جگہوں پرتو یہ بھی اتفاق ہوا کہ حافظ صاحب کیا پڑھ رہے ہیں، سمجھنا آسان نہیں ہوتا ہے ۔حالانکہ ایسا نہیںہونا چاہئے کیونکہ یہ کلام اللہ کی عظمت کے خلاف ہے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK