ادھو ٹھاکرے کے بیٹے کی ورلی سیٹ پراپنی جیت کو دہرانا اور راج ٹھاکرے کے بیٹے کا ماہم سیٹ پر اپنی پہلی جیت درج کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا گزشتہ الیکشن تک ہو سکتا تھا
EPAPER
Updated: October 24, 2024, 11:54 PM IST | Mumbai
ادھو ٹھاکرے کے بیٹے کی ورلی سیٹ پراپنی جیت کو دہرانا اور راج ٹھاکرے کے بیٹے کا ماہم سیٹ پر اپنی پہلی جیت درج کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا گزشتہ الیکشن تک ہو سکتا تھا
اسمبلی الیکشن میں اس وقت نہ صرف شیوسینا کے دو حصے ادھو گروپ اور شندے گروپ کی شکل میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے بلکہ راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نونرمان سینا بھی اس وقت پوری طاقت کے ساتھ میدان میں ہے جو کہ کبھی شیوسینا ہی کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ راج ٹھاکرے ، شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے کے چچا زاد بھائی ہیں ، اب ان دونوں کی مقابلہ آرائی اگلی نسل میں پہنچ گئی ہے۔ اس بار شیوسینا (ادھو) کی جانب سے ادھو کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے ورلی سے الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں سے وہ ۲۰۱۹ء میں الیکشن جیت چکے ہیں جبکہ راج نے اپنے بیٹے امیت کو پہلی بار ماہم اسمبلی حلقے سے میدان میںاتارا ہے۔لیکن کیا ان دونوں کیلئے آج کی صورتحال میںراہ اتنی آسان ہوگی؟
آدتیہ ٹھاکرے کے سامنے سندیپ دیشپانڈے
گزشتہ الیکشن میں آدتیہ ٹھاکرے نے ۸۹؍ ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں این سی پی (متحدہ ) کے سریش مانےکو صرف ۲۱؍ ہزار اور کچھ ووٹ ملے تھے۔ یعنی آدتیہ نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس بار ان کی راہ اتنی آسانی نہیں ہوگی کیونکہ ان کے سامنے شیوسینا ( شندے) کا بھی امیدوار ہوگا۔ جبکہ راج ٹھاکرے نے یہاں سے اپنے سب سے قریبی سندیپ دیشپانڈے کو بھی ٹکٹ دیا ہے۔ سب کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ دیشپانڈے کس کے ووٹ کاٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ہندوتوا وادی ووٹ ملے تو آدتیہ کی راہ آسان ہوگی اور اگر دیگر طبقات کے ووٹ لینے میں وہ کامیاب رہے تو شیوسینا (شندے) کو کامیابی مل سکتی ہے۔ حالانکہ آدتیہ ٹھاکرے کا بال ٹھاکرے کا پوتا ہونا اور وہاں کا موجود رکن اسمبلی ہونا ان کی سب سے بڑی طاقت ہوگی۔
امیت ٹھاکرے کے سامنے سدا سرونکر
راج ٹھاکرے نے ماہم سیٹ سے اپنے بیٹے امیت ٹھاکرے کے سیاسی کریئر کا آغا ز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں سے شیوسینا(غیر منقسم) کے سداسرونکر گزشتہ ۲؍ بار سے الیکشن جیت رہے ہیں۔ البتہ ۲۰۰۹ء میں یہ سیٹ ایم این ایس کے پاس تھی جب پارٹی کے اہم لیڈر نتن سردیسائی نے یہاں سے الیکشن جیتا تھا۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں ایم این ایس اس سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہی ہےاور اس نے دونوں مرتبہ سدا سرونکر کو کڑی ٹکر دی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں سرونکرکو ۶۱؍ ہزار ووٹ(۴۹؍ فیصد) ملے تھے جبکہ ایم این ایس کے سندیپ دیشپانڈے ۴۲؍ ہزار (۳۴؍ فیصد)ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے۔ کانگریس کے پروین نائیک ۱۵؍ ہزار (۲۳؍ فیصد) کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے۔ راج ٹھاکرے کا حساب یہ ہے کہ اگر ایم این ایس کے روایتی ووٹ امیت ٹھاکرے کو مل جاتے ہیں اور شیوسینا کے روایتی ووٹ شیوسینا کے دونوں گروپوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں تو امیت ٹھاکرے آسانی سے یہ الیکشن جیت جائیں گے۔ اس پر راج ٹھاکرے کا بیٹا ہونا بھی ان کے کام آئے گا۔ لیکن اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس بار اس سیٹ پر کانگریس نہیں ہوگی لہٰذا شیوسینا (شندے) اور ایم این ایس دونوں ہی کے ووٹ پھسل کر شیوسینا ( ادھو) کی طرف جاسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ راج ٹھاکرے نے جس طرح سے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان کے امیدوار مہاوکاس اگھاڑی کو ہرانے میں کام آئیں گے یا مہایوتی کو جیت دلانے میں۔ فی الحال امیت اور آدتیہ دونوں ہی میدان میں ہیں لیکن یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ دونوں ہی نوجوان لیڈروں کی جیت اتنی آسان نہیں ہوگی جتنی گزشتہ الیکشن تک ہو سکتی تھی۔