نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ موجودہ دور کی سیاست میں کوئی دن نہیں جاتا جب مسلمانوں کو ہدف نہ بنایا جاتا ہو، ایسے دور میں قومی مسلم نمائندگی کا فقدان ٹھیک نہیں
EPAPER
Updated: May 23, 2024, 8:16 AM IST | Pahalgam
نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ موجودہ دور کی سیاست میں کوئی دن نہیں جاتا جب مسلمانوں کو ہدف نہ بنایا جاتا ہو، ایسے دور میں قومی مسلم نمائندگی کا فقدان ٹھیک نہیں
جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے قومی سیاست میں مسلم لیڈروں کی غیر موجودگی پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جبکہ مسلمانوں کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، یہ خلاء کھٹکتا ہے۔ عمر عبداللہ کے بقول غلام نبی آزاد اس خلاء کو پُر کرسکتے تھے اور کانگریس میں رہتے ہوئے مسلم قیادت کا فریضہ ادا کرسکتے تھے مگر اُنہوں نے علاحدہ پارٹی بنالی جس کا المیہ ہے کہ وادیٔ چناب تک محدود ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ موجودہ وقت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قومی سطح پر مضبوط مسلم قیادت ہو جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی تسلی کا باعث ہو۔
یاد رہے کہ غلام نبی آزاد کانگریس کے سینئر لیڈروں میں تھے اور قومی سیاست میں مسلم نمائندگی کرنے والے چہرے کے طور پر دیکھے جاتے تھے مگر اگست ۲۰۲۲ء میں اُنہوں نے کانگریس سے پانچ دہائیوں پر محیط اپنی وابستگی ختم کرلی اور ’’ڈیموکریٹک آزاد پارٹی‘‘ بنائی جس کے نام سے ملک کے بہت کم لوگ واقف ہونگے۔ بقول عمر عبداللہ: ’’آزاد صاحب کو کانگریس کی مہم میں آگے ہونا چاہئے تھا لیکن مَیں نہیں جانتا کہ ایسا کیا ہوا جس کے سبب اُنہوں نے اتنی طویل رفاقت کی پروا نہیں کی مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ قومی سطح پر مسلم نمائندگی یا مسلم لیڈروں کی کمی بُری طرح کھٹکتی ہے۔
ہرچند کہ غلام نبی آزاد کی موجودگی کا معنی کانگریس میں مسلمانوں کی نمائندگی تھا مگر عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ اُن کا کانگریس میں نہ رہنا (ذاتی پسند ناپسند کا سوال ہوسکتا ہے) مسلمانوں کا نقصان ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک کے مسلمان بی جے پی کی جانب سے غیر معمولی جارحیت کی زد پر ہوں۔ آج کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب مسلم کمیونٹی پر کسی نہ کسی انداز میں حملہ نہ ہوتا ہو، حالیہ دنوں میں خواہ وہ منگل سوتر کو بنیاد بناکر کانگریس کو ہدف بنانے کا عمل ہو یا بابری مسجد کے بارے میں کوئی بحث، تنقید کا ہدف چاہے جو ہو، زد پر مسلمان ہی رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے عمر عبداللہ سوال کرتے ہیں کہ ’’آخر بابری مسجد کے معاملے میں بھی مسلمانوں پر لعن طعن کیوں کی جاتی ہے جبکہ ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کیا، تبھی تو رام مندر تعمیر کیا جاسکا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے گزشتہ ۱۰۰؍ سال میں کب کسی مندر پر بلڈوزر چلایا؟ ہم تو مذہب کی سیاست کا ہدف بن رہے ہیں۔ ایسے میں قومی سطح پر مسلم نمائندگی کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہے۔‘‘
عمر عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی کی انتخابی کا کوئی مرکزی موضوع نہیں ہے جس کے سبب پارٹی ایک کے بعد دوسرے موضوع کی طرف لپک رہی ہے۔ اُنہوں نے جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہندو مسلم، ہندو مسلم کرنے پر مجھے اتنی حیرت نہیں جتنی اس بات پر ہے کہ انتخابی تقریر میں اڈانی اور امبانی کا نام لے لیا گیا اور بتایا گیا کہ اُن کے پیسوں سے لدے ہوئے ٹرک پیسے تقسیم کررہے ہیں، اگر ایسا ہے تو مجھے افسوس کہ ہے کہ ایک ٹرک بھی میرے گھر پر نہیں آیا، ایسا ہوتا تو مجھے انتخابی مہم چلانے کیلئے چھوٹا موٹا ایک طیارہ تو مل جاتا!‘‘