• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سرکار کی نظر دیگر اقلیتی طبقا ت کی جائیدادوں پر بھی ہے!

Updated: September 21, 2024, 9:27 AM IST | New Delhi

کیا وقف بل شروعات ہے؟ حکومت کی نظر دیگر اقلیتی طبقات کی زمینوں اور ہندوبورڈس کی لاکھوں ایکڑ  جائیداد وں پر بھی ہے، وقف بورڈ تو محض چند لاکھ ایکڑ کا مالک ہے

Asaduddin Owaisi, Sanjay Singh, Jagdambika Pal and other leaders leaving the Joint Parliamentary Committee meeting.(PTI)
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ سے باہر نکلتے ہوئے اسد الدین اویسی ، سنجے سنگھ ، جگدمبیکا پال اور دیگر لیڈران ۔(پی ٹی آئی )

متنازع وقف بل پر جے پی سی  بھلے ہی پوری سرگرمی کے ساتھ میٹنگیں کررہی ہے اور مختلف ’اسٹیک ہولڈرس ‘ اپنی اپنی آراء پیش کررہے ہوں  اور یہ پیغام دیا جا رہا ہو کہ ملک میں وقف بورڈس کے پاس لاکھوں ایکڑ   زمینیں ہیں لیکن کیا حقیقت واقعی یہی ہے جو سوشل میڈیا پر  یا مختلف ہندوتوا وادی نیوز پورٹلس کے ذریعے بتایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں معروف ہندی اخبار’امر اجالا ‘ کی ایک طویل رپورٹ شائع ہوئی  ہے جس میں سلسلہ وار طریقے سے بتایا گیا ہے کہ  وقف بل لانے کا سرکار کا مقصد کیا ہے ، وقف بورڈ کے پاس کتنی زمین ہے جبکہ ہندوئوں کے مختلف بورڈس کتنی  لاکھ ایکڑ زمین کے مالک ہیں ۔ساتھ ہی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سرکار وقف بل کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے۔اس کا مقصد ہر طبقہ اور ہر مذہبی ادارے کے پاس موجود زمین کو اپنی تحویل میں لینا ہے۔ ایسے میں اگر اگلے کچھ مہینوں میں دیگرمذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کے مختلف بورڈس کی زمینوں پر قبضہ کا کوئی بل لایا جاتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہو گی۔ 
بل لانے کا اصل مقصد کیا ہے ؟
  امراجالا کی رپورٹ کے مطابق وقف ترمیمی بل  لانے کا مقصد حکومت کا ایک تیر سے کئی شکار کرنا ہے۔ بل کے مخالفین  واضح طور پر یہ بات کہتے آئے ہیںکہ حکومت  اس بل کے ذریعے فی الحال مسلمانوں پر نشانہ لگارہی ہے لیکن اس کا اصل مقصد مختلف ریاستوں کے ہندو بورڈس کی زمینیں حاصل کرنا ہے لیکن اس سے قبل وہ مسلمانوں کے بعد دیگر اقلیتوں جیسے سکھوں، بدھسٹوں ، جین اور عیسائیوں کی زمینیں اور جائیداد حاصل کرنے کی بھی کوششیں کرے گی۔ مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی حکومت ہندوئوں کو نقصان پہنچانے والے کئی متنازع قوانین لے کر آئی ہے اور آگے بھی لانا چاہتی ہے لیکن وہ اسے مسلم مخالفت کے پردے میں لپیٹ کر پیش کرتی ہے تاکہ اس کے عام  حامیوں کو کوئی شبہ نہ ہو اورہندوتوا وادی بھی خوش رہیں۔ ایسے قوانین پر عام طور پر مسلمان فوری طور پر آواز بلند کرتے ہیں جس سے سرکار کو اپنا پیغام دینے کا موقع مل جاتا ہے لیکن حقیقتاً وہ قوانین ہندوئوں کیلئے زیادہ نقصاندہ ہوتے ہیں۔ 
یوپی حکومت کا متنازع بل 
 مثال کے طور پر یوپی حکومت کا نزول بل پیش کیا جاسکتا ہے جو لایا تو گیا تھا تاکہ مسلمانوں کی پراپرٹی پر قبضہ کیا جاسکے لیکن اس کے مضمرات کو سمجھتے ہوئے خود بی جے پی کے کئی اراکین اسمبلی نے اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔ عالم یہ تھا کہ سرکار نے اسے نافذ کرنے کی شروعات ہی کی تھی کہ اسے اپنی پارٹی  سے ہی شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اس معاملے میں بی جے پی کی اعلیٰ لیڈر شپ کو مداخلت کرنی پڑی اور پھر یہ قانون روک دیا گیا۔ فی الحال اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔موجودہ وقف بل کے خلاف بھلے ہی  اس وقت مسلمان آواز اٹھارہے ہیں لیکن جب دیگر طبقات کے خلاف بل لائے جائیں گے اور ان کی زمینوں پر قبضے کی کوششیں ہو ں گی تب وہ بھی آواز بلند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ 
کس کے پاس کتنی زمین ہے ؟
 متنازع وقف بل کی حمایت میں سوشل میڈیا پر لگاتار یہ مہم چلائی جارہی ہے کہ ریلوے اور فوج کے بعدوقف بورڈ کے پاس سب سے زیادہ زمین اور جائیداد ہے لیکن مذکورہ بالا اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں وقف بورڈ کے پاس  صرف ۹ء۵؍ لاکھ ایکڑ زمین ہی ہے  جو پورے ملک کے رقبے کا صرف چند ہی فیصد ہو گا  جبکہ اس کے مقابلے میں مختلف ریاستوں میں موجود ہندو بورڈس کے پاس کئی لاکھ ایکڑ زمینیں ہیں جو مجموعی طور پر ریلوے اور فوج کی زمینوں سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر صرف تمل ناڈو میں  ہندو بورڈ کے پاس  ۳ء۵؍ لاکھ ایکڑ زمین ہے جبکہ اس کی پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں ہندو بورڈ کے پاس ۴؍ لاکھ ۶۵؍ ہزار ایکڑ زمین ہے۔ واضح رہے کہ ان زمینوں پر ہندو بورڈس کی جانب سے مختلف مندر ،آشرم ، دھرم شالائیں اور دیگر عمارتیں قائم ہیں جو صرف ہندوئوں کےاستعمال میں آتی ہیں۔ ان کے کرائے سے ہندو بورڈس کو اربوں روپے کی آمدنی بھی ہو تی ہے۔

muslim Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK