اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ مشیل بیچلیٹ کے دورہ بنگلہ دیش کے موقع پر روہنگیا پناہ گزینوں نے قتل کے حالیہ واقعات کے بعد ان سے تحفظ کی درخواست کی ہے جس نے ایک بار پھر انہیں عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 18, 2022, 11:40 AM IST | Agency | Dhaka
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ مشیل بیچلیٹ کے دورہ بنگلہ دیش کے موقع پر روہنگیا پناہ گزینوں نے قتل کے حالیہ واقعات کے بعد ان سے تحفظ کی درخواست کی ہے جس نے ایک بار پھر انہیں عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ مشیل بیچلیٹ کے دورہ بنگلہ دیش کے موقع پر روہنگیا پناہ گزینوں نے قتل کے حالیہ واقعات کے بعد ان سے تحفظ کی درخواست کی ہے جس نے ایک بار پھر انہیں عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ خبررساں ادارے `اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مشیل بیچلیٹ نے بدھ کو پورا دن بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی وسیع و عریض امدادی بستیوں میں مکینوں کے ساتھ ملاقات میں گزارا جہاں تقریباً۱۰؍ لاکھ روہنگیا رہائش پزیر ہیں جنہوں نے ہمسایہ ملک میانمار میں ظلم و ستم سے تنگ آکر فرار اختیار کیا ہے۔ واضح رہےکہ رواں ماہ ان کیمپوں میں سیکوریٹی دوبارہ سخت کردی گئی ہے جب اس پناہ گزیں کمیونٹی کے۲؍ لیڈرو کو مبینہ طور پر کیمپوں میں سرگرم ایک باغی گروپ نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ مذہبی لیڈر مولوی ظفر نے اقوام متحدہ کی سفیر سے ملاقات کے بعد کہا کہ `وہ کیمپوں میں ہونے والے قتل کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں، ہم نے ان سے اس حوالے سے اور کیمپ کی حفاظت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ `ہم نے کیمپ کی سیکوریٹی کو مضبوط بنانے کے بارے میں بات چیت کی اور سیکوریٹی کا مطالبہ کیا۔ان کیمپوں کے زیادہ تر رہائشی۲۰۱۷ء میں میانمار میں مسلم اقلیت کے خلاف فوج کے حملے کے بعد ملک سے فرار ہو کر آگئے تھے۔اس کریک ڈاؤن پر اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک مقدمہ جاری ہے جس میں میانمار کے حکام پر نسل کشی کا الزام ہے۔ان کیمپوں میں سیکوریٹی ایک مستقل مسئلہ رہا ہے جس میں متعدد قتل، اغواء اور منشیات کی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے پولیس کے ہاتھوں نشانہ بننے جیسے واقعات شامل ہیں۔گزشتہ ستمبر میں سرکردہ روہنگیا لیڈر محب اللہ کا قتل ہوا جنہیں پناہ گزینوں کی دربدری کے۲؍ سال مکمل ہونے پر تقریباً ایک لاکھ شرکا ءپر مشتمل ایک احتجاجی جلسہ منعقد کرنے پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے اسی برس وہائٹ ہاؤس میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی تھی اور جنیوا میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ان کے قتل کے فوراً بعد ایک اسلامی مذہبی اسکول میں۶؍ روہنگیا طلبہ اور اساتذہ کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔کیمپ میں رہنے والوں نے ان دونوں حملوں اور رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والی۲؍ ہلاکتوں کا الزام `اراکان روہنگیا سالویشن آرمی نامی ناغی گروپ پر عائد کیا جس پر منشیات کی اسمگلنگ اور سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کا الزام ہے۔