Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’جمہوریت کے دو اہم ستون عدلیہ اور میڈیا اِس وقت زبردست دباؤ کے شکار ہیں‘‘

Updated: April 21, 2025, 10:48 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ کے سابق جج ، جسٹس مدن بی لوکُر نے ایک ہی دن ۲؍ اہم تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے موجودہ حالات پر سخت تبصرہ کیا ، کہا: عدالتیں انصاف کرنے سے ڈرتی ہیں

Justice Madan B Lokur, known for his boldness
جسٹس مدن بی لوکُر جو اپنی بے باکی کیلئے جانے جاتے ہیں

 سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس مدن بی لوکُر اپنی صاف گوئی کیلئے جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنی اسی صاف گوئی کیلئے اکثر موجودہ حکمراں جماعت کیلئے پریشانی کاباعث بھی بنتے رہے ہیں۔ دو دن قبل  دو مختلف پروگراموں میں انہوں نے ایک بار پھر ملک کی موجودہ صورتحال کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ پہلے پروگرام میں انہوں نےجمہوریت کے دو اہم ستون عدلیہ اور میڈیا پر دباؤ کو جبکہ دوسرے پروگرام میں حکومت  میں شامل آمریت پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہ اس کی وجہ سے جہاں انصاف کے حصول میں دشواریاں پیش آتی ہیں، وہیں بین ا لاقوامی سطح پر ملک کی شبیہ بھی متاثر ہوتی ہے۔
  دو دن قبل نئی دہلی کے’ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر‘ میں’نئی دنیا نیشنل فاؤنڈیشن‘ کے زیراہتمام منعقدہ ایک ایوارڈ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس مدن لوکر نے کہا کہ’’  جمہوریت کے دو اہم ستون عدلیہ اور میڈیا اس وقت زبردست دباؤ کا شکار ہیں۔ دونوں اہم اداروں کی آزادی پر حملے کا طریقہ مختلف ہے، لیکن حملہ ہو رہا ہے۔‘‘ فاؤنڈیشن نے ملک کے نامور صحافیوں اور کئی دیگر اہم شخصیات کو ’میڈیا فار یونٹی ایوارڈز۲۰۲۵ء‘ سے سرفراز کیا۔اس موقع پر اپنا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے جسٹس مدن بی لوکر نے میڈیا اہلکاروں کو پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے ہراساں کئے جانے، صحافیوں کو قید میں رکھنے اور ان کی ضمانتیں نامنظور کئے جانے کے معاملات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے کہا کہ آج عدالتیں بھی خوف کے سائے میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران علالت کی بنیادپر’جے پی‘ کو ضمانت مل گئی تھی لیکن آج کل صدیق کپن کو طویل مدت تک جیل میں رکھا جاتا ہے  اوراس دوران اس کی ماں کی موت ہوجاتی ہے، لیکن اس بیچارے بیٹے کوضمانت نہیں مل پاتی ہے۔یہ دیکھتے ہوئے کہ آج جیلوں میں بشمول صحافی بڑی تعداد میں لوگ ہیںیہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں ضمانت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ ان لوگوں کو ضمانت دینے سے ڈرتی ہے؟پروگرام کی صدارت سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کی ۔
 اس موقع پر ’دی ہندو‘ کی نیشنل ایڈیٹر سہاسنی حیدر کو’کلدیپ نیر ایوارڈ‘ ،اوم تھانوی کو ’پربھاش جوشی ایوارڈ‘، نوین شوری کو ’مولانا عبد الوحید صدیقی ایوارڈ‘،پریتی چودھری کو’ایس پی سنگھ ایوارڈ‘، فلم ساز انوبھو سنہا کو ’شیام بینیگل ایوارڈ‘،تھیٹر کیلئےایم کے رینا کو’حبیب تنویر ایوارڈ‘،ارون شوری کو اُن کی کتاب ’دی نیو آئیکون‘ پر ’خشونت سنگھ ایوارڈ‘ اور ڈیجیٹل میڈیا کیلئے’ دی وائر‘ کے سدھارتھ وردراجن کو’یونٹی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا جبکہ مرنال پانڈے کو ’پربھا دت لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ پیش کیا گیا۔ اسی طرح ’انڈیا لو پروجیکٹ‘ کو ’سوامی اگنی ویش ایوارڈ برائے سماجی خدمات‘ دیا گیا۔
  اسی طرح نئی دہلی ہی میں ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے)‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک دوسری تقریب ’ہندوستان میں عدالتی آزادی: توازن پر سوال‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ کے اجرا پر گفتگو کرتے ہوئے، جسٹس لوکر نے عدالتی تقرریوں،  انصاف کے حصول میں تاخیر، شفافیت، تنوع، فرقہ واریت اور جوابدہی پر کھل کر اور آزادانہ  انداز میں  بات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں بین الاقوامی معیارات کے مطابق اپنا معیار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک کھلی اور آزادانہ بحث کرنی چا ہئے جہاں ہم یہ کہہ سکیں کہ ہاں! آپ جانتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ صحیح ہے یا جو ہم کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے... اور ہم اسے کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا کہ اس میں تقریباً ہر کیس اور ہر مسئلہ شامل ہو جیسے مقدمات کی سماعت میں تاخیر اور عدالتی احکامات  کے تئیں حکومت کا موقف۔ انہوں نے کہا کہ ’’جیسے حکومت کا یہ موقف کہ ہم فلاں فیصلے کی تعمیل نہیں کرنے جارہے ہیں... بلڈوزر جسٹس ، ٹھیک ہے،  ہم سپریم کورٹ کے احکامات کو بلڈوزر سے اُڑا دیں گے۔‘‘  
 اس موقع پرانہوں نے ججوںکے انتخاب کے طریقہ کار بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کیلئے معیار میں اہلیت، دیانتداری اور غیر امتیازی سلوک شامل ہونا چاہئے، بشمول مذہب، ذات یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر کسی طرح کا کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اس کیلئے کسی ایسے شخص کی تقرری کی جائے جس کی کوئی سیاسی وابستگی نہ ہو، لیکن بین الاقوامی معیار میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی وابستگی کی اجازت  ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK