سابق وزیر اور این سی پی کے سینئر لیڈر کے قتل پرسیاسی لیڈروں اور ملی تنظیموں نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی سمیت پورے مہاراشٹر میں عوام کی حفاظت رام بھروسے رہ گئی ہے۔
EPAPER
Updated: October 14, 2024, 2:03 PM IST | Saeed Ahmed Khan / Iqbal Ansari | Bandra
سابق وزیر اور این سی پی کے سینئر لیڈر کے قتل پرسیاسی لیڈروں اور ملی تنظیموں نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی سمیت پورے مہاراشٹر میں عوام کی حفاظت رام بھروسے رہ گئی ہے۔
سینئر لیڈر اور سابق ریاستی وزیر ضیاء الدین عرف بابا صدیقی کے قتل پر ملی تنظیموں نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور شہریوں کی حفاظت اور نظم ونسق کی صورتحال پر سوال اٹھائے۔ واضح رہےکہ سنیچر کی شب باندرہ میں ان کے بیٹے ایم ایل اے ذیشان صدیقی کے دفتر کے قریب بے خوف مجرموں نے گولیاں برسا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ہر پہلو سے جانچ کرکے قتل کا سبب جاننا ضروری
جمعیۃ علماء کے صدر مولانا حلیم اللہ قاسمی نے کہا کہ یہ افسوسناک واقعہ اور قوم وملت کا بڑا خسارہ ہے۔ ہم سب اس مشکل گھڑی میں ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور اس کیس کی باریکی سے جانچ کے ساتھ مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے عہدیدار حسیب بھٹ نے کہا کہ بابا صدیقی کی موت پر سوال قائم ہونا لازمی ہے۔ یہ معلوم کیا جانا ضروری ہے کہ قتل کا سبب سیاسی وجوہات، کاروباری معاملات، لین دین یا اور کسی وجہ سے کیا گیا ہے۔ دوسرے اب تک کی خبروں کےمطابق یوپی اور ہریانہ سے مجرموں کا ممبئی پہنچ کر ایک سینئر لیڈر کو قتل کردینا کوئی معمولی بات نہیں ۔ پھر عوام کی حفاظت کا کیا ہوگا؟ اور حکومت کا ان کی حفاظت کا بلند بانگ دعویٰ کس بنیاد پر درست کہا جاسکے گا۔ اس قتل نے حکومت کے دعوے کی قلعی پوری طرح کھول دی ہے۔
مولانا عبدالسلام سلفی نے کہا کہ اس سے نظم ونسق کی صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی جان ومال عزت وآبرو کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر کیا ہورہا ہے کسی سے مخفی نہیں۔ بابا صدیقی کی موت پر کئی سوال قائم ہوتے ہیں ان کا جواب تلاش کرنے کے ساتھ آئندہ اس طرح کے دردناک واقعات کے تدارک کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
یہ حکومت کی نااہلی ہے
رضا اکیڈمی کے سربراہ محمد سعید نوری نے کہا کہ یہ حکومت کی نااہلی ہے کہ سابق وزیر کو اس طرح سرراہ گولی ماردی جاتی ہے۔ اگر یہ سیاسی لیڈران کا حال ہے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ عام آدمی کی حفاظت کا تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ناکامی کے باوجود شندے حکومت کی جانب سے ہم یہ کریں گے، وہ کریں گے، ایسا ہوگا ویسا ہوگا اور کسی کو بخشا نہیں جائے گا وغیرہ بیان بازی جاری ہے۔
ان کی ملی خدمات قابل ستائش ہیں
آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود خان دریادی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ ضیاء الدین بابا صدیقی کئی مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہوئے، مہاراشٹر حکومت میں وزیر بھی رہے۔ بابا صدیقی کی یہ خصوصیت دیکھی کہ جب بھی اُنھیں کسی ملی، سماجی، اور فلاحی کام کے لئے بلایا گیا ہمیشہ حاضر ہوئے اور اس سلسلے میں اُنہوں نے کبھی دوسری پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی اعتراض نہیں کیا، ملت کے ارباب حل وعقد کی طرف سےاُن کو جو کام سپرد کیا گیا، اُنھوں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ پورا کیا۔ خاص بات یہ بھی کہ ملی کام اُنھوں نے جو بھی کئے مثلا تبلیغی جماعت، پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماءوغیرہ کے عوامی اجلاس کے لئے تعاون کرنا، سرکار اور پولیس سے لاکھوں کے افراد کے جلسوں واجتماعات کی اجازت دلوانا وغیرہ، ایسے کاموں کا انھوں نے کبھی کوئی سیاسی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ یہ کام اُن کے لئے ذخیرہ آخرت ثابت ہوں گے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر حافظ ندیم صدیقی نے کہا کہ بابا صدیقی کے قتل کی وجوہات کاپتہ لگانا ضروری ہے تاکہ سازش کا اندازہ ہوسکے۔ سابق ریاستی وزیر کے اس طرح قتل نے حکومت کے دعوے اور حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ ممبئی اور ریاست میں نظم ونسق کی صورتحال سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
موومنٹ فار ہیومن ویلفیئر کے سربراہ ڈاکٹر عظیم الدین نے کہا کہ ڈبل انجن کی سرکار میں یہ حالت؟ انٹیلی جینس کا اس طرح فیل ہوجانا انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ یہ اس لئے کہ اگر حکومت میں شامل سابق وزیر محفوظ نہیں تو پھر ریاست کے عوام کا تحفظ کیسے ممکن ہوگا۔ اس کے علاوہ مجرموں کی اس طرح بے خوفی سے ایسا لگتا ہے کہ ممبئی پھر غیر محفوظ ہوگئی ہے اور اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔ اس کے علاوہ اس کیس کی تہہ میں جاکر باریکی سے تفتیش اور قتل کا سبب جاننا ضروری ہے تاکہ تدارک ہوسکے۔
وزیر داخلہ دیویندر فرنویس سے استعفیٰ کا مطالبہ
مہاراشٹر کے سابق وزیر اور موجودہ رکن اسمبلی ذیشان صدیقی کے والد بابا صدیقی کے سر عام فائرنگ میں قتل سے عوام میں شدید غم وغصہ پایا جارہا ہےاور اسی لئے ان کے دیدار کیلئے ان کے ہزاروں چاہنے والے گھنٹوں کھڑے رہے۔ مسلم اراکین اسمبلی نے بھی شدید مذمت کی ہے اور قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ تاثرات ان لیڈران نے انقلاب سے بات چیت کے دوران دیئے۔
اعلیٰ سطحی جانچ ہو اور سرکار ذمہ داری طے کرے
اس سلسلے میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن اور اقلیتی امور کے سابق وزیر محمد عارف نسیم خان نے بتایا کہ ’’جس طرح کھلے عام بابا صدیقی پر فائرنگ کی گئی ہے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ ہمیں افسوس اور دکھ پہنچا ہے۔ بابا صدیقی این سی پی ( اجیت پوار) خیمے کے لیڈر تھے اور جب برسر اقتدار پارٹی کے ایک لیڈر پراس طرح فائرنگ کی جارہی ہے تو اس سے ممبئی اور ریاست میں لا اینڈ آرڈرکی صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کو اس کی ذمہ داری طے کرنا چاہئے، اعلیٰ سطحی جانچ ہونا چاہئے، قاتلوں کو بے نقاب کرنا چاہئے اور سخت سزا دینا چاہئے۔ ‘‘
یہ حکومت کی ناکامی ہے
سماجوادی پارٹی کے ریاستی صدر و رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ’’ بابا صدیقی ایک دوست اور خوش مزاج اور ملنسار شخص تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کی کسی سے دشمنی ہوگی۔ انہیں سیکوریٹی دینے کے بعد ان پر فائرنگ ہوتی ہے تو یہ افسوسناک ہے۔ اس واردات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مہا یوتی کی حکومت برسر اقتدار پارٹی کے لیڈروں کو بھی تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح نام کام ہے تو عام شہریوں کو کیا تحفظ فراہم کرے گی؟ ریاست اور ملک کا قانون سخت نہیں ہے جس سے قاتلوں کو ضمانت مل جاتی ہے، یہاں تو عرب ممالک جیسا سخت قانون بنانا چاہئے جس میں قاتلوں کو جلد از جلد سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ‘‘
ممبئی میں لا اینڈ آرڈرنہیں ہے
سابق وزیر و رکن اسمبلی اسلم شیخ نے کہا کہ ’’بابا صدیقی کا بہیمانہ قتل ممبئی کے لاء اینڈ آرڈر کیلئے دھچکا ہے۔ جس شخص کو پولیس سیکوریٹی دی گئی ہے، اسے اس طرح گولیاں مارنے کی واردات سے ظاہر ہوتا ہےکہ شہر میدان جنگ بنتا جا رہا ہے اور پولیس اور محکمہ داخلہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اس دکھ کی گھڑی میں مَیں بابا صدیقی کے اہل خانہ سے تعزیت کرتا ہوں۔ ‘‘
ریاست کے وزیر داخلہ کو استعفیٰ دینا چاہئے
این سی پی ( شرد پوار) کے ترجمان و سابق وزیر نسیم صدیقی سے کہا کہ ’’ یہ افسوسناک واقعہ ہے۔ جب بابا صدیقی جیسے عوام میں مقبول اور برسراقتدار پارٹی کے رکن کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو عام شہریوں کے تحفظ کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ اس واردات پر وزیر داخلہ کو استعفیٰ دینا چاہئے۔ ‘‘رکن اسمبلی امین پٹیل نے کہاکہ’’بابا صدیقی ہر طبقے اور سماج کے لوگوں سے خوشی خوشی ملتے تھے اور ان کے دکھ درد میں ان کا ساتھ دیتے تھے۔ ان کے آخری دیدار کیلئے زبردست بھیڑ دیکھی گئی۔