• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’زمین خالی کرانے سے قبل بازآبادکاری کی جائے‘‘

Updated: July 26, 2024, 10:48 AM IST | Agency | Haldwani

ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر قبضہ کے معاملےمیں سپریم کورٹ کا اہم حکم ، کہا کہ ۵۰؍ ہزار لوگوں کی بازآبادکاری ضروری ہے۔

Last year, there was a large-scale protest against the demolition operation in Haldwani.  Photo: INN
ہلدوانی میں انہدامی کارروائی کے خلاف گزشتہ سال بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔ تصویر : آئی این این

اتراکھنڈ کے ہلدوانی شہر میں ریلوے کی زمین پر مبینہ قبضہ  کے معاملے میں سماعت  کےدوران سپریم کورٹ نے نہایت اہم اور دوررس نتائج کے حامل تبصرے کئے۔ کورٹ نے  کہا کہ اس زمین پر رہائش پذیر افراد بھی  انسان ہیں اور ایسے میں ریلوے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں یہاں سے ہٹانے سے قبل ان کی بازآبادکاری کرے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت ظالمانہ رویہ اختیار نہیں کر سکتی۔ اتھاریٹی کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہلدوانی ریلوے کی زمین پر قبضہ کرنے والے لوگوں کی بازآبادکاری کی جائے تاکہ ریلوے اسٹیشن کا ڈیولپمنٹ ہو سکے۔سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کے چیف سیکریٹری سے کہا کہ وہ ریلوے کی زمین پر مبینہ طور پر قبضہ کرنے والے ۵۰؍ ہزار لوگوں کی باز آبادکاری کے سلسلے میں مرکز اور ریلوے حکام کے ساتھ میٹنگ کریں۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ کے جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ کے سامنے سماعت جاری ہے۔
دراصل گزشتہ سال جنوری میں سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے ریلوے کی ۲۹؍ ایکڑ اراضی سے ناجائز قبضہ ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ مرکزی حکومت نے اس فیصلے پر سپریم کورٹ کی طرف سے لگائے گئے اسٹے کے خلاف  درخواست داخل کی تھی جس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مذکورہ ہدایات دی ہیں۔جسٹس سوریہ کانت کی قیادت والی تین ججوں کی بنچ نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ اس معاملے میں ایک جامع اسکیم بنائے تاکہ ان لوگوں کی بازآبادکاری کی جاسکے۔ کورٹ نے کہا کہ ظاہرہے کہ یہ لوگ کئی دہائیوں سے اس زمین پر رہ رہے تھے اور اپنی روزی کما رہے تھے۔ یہ لوگ انسان ہیں اور عدالت ان پر ظلم نہیں کر سکتی۔ اس معاملے میں متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ ایسی زمین تلاش کرے جہاں بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ ان ۵۰؍ ہزار افراد میں سے اکثریت کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔سپریم کورٹ نے ریلوے سے سوال کیا کہ کیا اس نے مبینہ تجاوزات کے  لئے پہلے بھی کچھ کیا تھا کیوں کہ یہ لوگ کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ان کے خلاف اچانک کارروائی کیسے کی گئی ، کیا پہلے نوٹس دیا گیا تھا؟ جسٹس سوریہ کانت نے  یہ بھی پوچھا کہ اگر  یہ لوگ ناجائز قبضہ کررہے تھے تو  انہیں پہلے کیوں نہیں روکا گیا ؟  اب آپ ان لوگوں کو وہاں سے ہٹا کر جگہ خالی کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ لوگ بھی انسان ہیں اور ہمیں انسانی نقطہ نظر سے کام لینا ہو گا۔
اس دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے کہا کہ جن لوگوں نے قبضہ کروایا ہے ان  کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس پر جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس زمین کے بنیادی دستاویزات ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ قبضہ کرنے والے لوگ ہیں تب بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا یہ انسان نہیں ہیں؟ یہ لوگ کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ وہاں ان کا پختہ گھر ہے۔ عدالت ظالم نہیں ہو سکتی لیکن ساتھ ہی عدالت غیر قانونی قبضہ کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرسکتی۔ آپ کو بطور ریاست اس معاملے میں کچھ کرنا چا ہئے کیونکہ سب کچھ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور ہوتا رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ اس زمین پر سیکڑوں خاندان دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ عدالت نے مرکزی حکومت اور اتراکھنڈ حکومت سے کہا کہ وہ ایسی جگہ کی نشاندہی کو یقینی بنائیں جہاں ضروری انفراسٹرکچر تیار کیا جا سکے یا ریلوے لائن شفٹ کی جاسکے۔ جن خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے ان کی شناخت کو بھی یقینی بنایا جائے۔   کورٹ نے اپنی ہدایتوں میں یہ بھی واـضح کیا کہ ریلوے اتھاریٹی کے افسران اور مرکزی حکومت کے شہری امور کے افسران کو  اس معاملے میںشامل کیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ بازآبادکاری کیسے ہو سکتی ہے اور یہ تمام فریقوں کیلئے منصفانہ اور قابل قبول ہو۔عدالت نے چار ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے اگلی سماعت ۱۱؍ ستمبر کو مقرر کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK