اپوزیشن کے شدید احتجاج کے درمیان پیش کیا گیا،۲ ؍ تہائی اکثریت سے منظور کروانے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا، حمایت میں صرف ۲۶۹؍ ووٹ، بل جے پی سی کے حوالے۔
EPAPER
Updated: December 18, 2024, 4:21 PM IST | Agency | New Delhi
اپوزیشن کے شدید احتجاج کے درمیان پیش کیا گیا،۲ ؍ تہائی اکثریت سے منظور کروانے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا، حمایت میں صرف ۲۶۹؍ ووٹ، بل جے پی سی کے حوالے۔
لوک سبھا میں ’وَن نیشن، وَن الیکشن‘ یعنی ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کو لے کر زبردست ہنگامہ اور احتجاج دیکھنے کو ملا۔ اس دوران مرکزی حکومت کی پول بھی کھل گئی کہ اسے ایوان میں ۲؍ تہائی اکثریت حاصل ہے۔ لوک سبھا میں اس بل کی اپوزیشن پارٹی لیڈران نے نہایت سختی سےمخالفت کی اور بل پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ سرکار نے اپنی اکثریت کے زعم میں پہلے تو ہاتھ اٹھاکر ووٹنگ کروائی لیکن جب اپوزیشن نہیں مانا تو یہ مطالبہ منظور کرلیا اور جب ’وَن نیشن، وَن الیکشن‘ بل سے متعلق لوک سبھا میں جب ووٹنگ ہوئی تو اس کی حمایت میں صرف ۲۶۹؍ ووٹ پڑے جبکہ اس کے خلاف ۱۹۸؍ اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ ڈالا۔ اس ووٹنگ سے ظاہر ہو گیا کہ سرکار کے پاس یہ بل منظور کروانے کے لئے مکمل اکثریت بھی نہیں ہے جس کے بعد حکومت کو یہ بل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی یعنی جے پی سی کو سونپ دینا پڑا۔
بل پر ہنگامہ
دراصل مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے مشورہ کے بعد مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے پہلے تو یہ بل لوک سبھا میں پیش کیا۔ جب اس پر اپوزیشن نے شدید ہنگامہ کیا اور بل کو غیر آئینی اور غیر قانو نی قرار دے کر اسے آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیاتو سرکار کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ اس نے فوراً لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے ’وَن نیشن، وَن الیکشن‘ بل کو وسیع صلاح و مشورہ کیلئے پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی گزارش کی۔ اس گزارش کو لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے بھی فوری منظوری دے دی۔
سرکار کے پاس ۲؍ تہائی اکثریت نہیں ہے
حالانکہ اس بل کو پاس کرانے کے لئے جو دو تہائی اکثریت درکار تھی وہ حکمراں محاذ کو حاصل نہیں ہوئی جبکہ بی جے پی نے چند روز قبل ہی وہپ جاری کرکے اپنے سبھی اراکین کو ایوان میں موجود رہنے کی ہدایت دی تھی لیکن بتایا جارہا ہے کہ خود بی جے پی کے ۲۰؍ سے زائد اراکین ووٹنگ کے وقت غیرحاضر تھے۔ پارٹی نے اراکین کو نوٹس روانہ کردیا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ ان کے خلاف وہپ کی خلاف ورزی پر کارروائی کیوں نہ کی جائے ؟
بل کو ۳۸؍ ووٹ کم ملے
لوک سبھا میں اس بل سے متعلق ہوئی ووٹنگ میں مجموعی طور پر ۴۶۱؍ ووٹ پڑے اور ۲؍ تہائی اکثریت کے لئے اسے ۳۰۷؍ ووٹ چاہئیں تھے لیکن اسے ۳۸؍ ووٹ کم ملے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی لیڈر شپ اپنے غیر حاضر اراکین پر شدید برہم ہے کیوں کہ ان کی نا اہلی کی وجہ سے اس کا اکثریت کا دعویٰ بے نقاب ہو گیا ہے ۔
امیت شاہ نے بل پر وضاحت پیش کی
اس سے قبل مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ’وَن نیشن، وَن الیکشن‘ بل پر بحث کے دوران لوک سبھا میں اپنا واضح نظریہ بیان کیا۔ امیت شاہ نے کہا کہ جب یہ آئینی ترمیمی بل کابینہ کے پاس بحث میں آیا تھا تبھی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسے جے پی سی کو دینا چا ہئے تاکہ اس پر سبھی سطح پر تفصیلی گفتگو ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ ایوان کا زیادہ وقت ضائع کئے بغیر اسے جے پی سی کو سونپا جانا چاہئے۔ بعد ازاں جے پی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر کابینہ اسے پاس کرے گی۔ اس کے بعد پھر سے اس پر مکمل بحث ہوگی۔
وزیر قانون کی وضاحت
یہ بل لوک سبھا میں منگل کو وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ رول ۷۴؍کے تحت وہ اس بل کے لئے جے پی سی کی تشکیل کی تجویز دیں گے۔ اس دوران کانگریس کے کئی سرکردہ لیڈران نے اس آئینی ترمیمی بل کی سختی سے مخالفت کی۔ پارٹی لیڈروں نے کہا کہ ایک ملک، ایک انتخاب بل صرف پہلا سنگ میل ہے۔ اصل مقصد ایک نیا آئین لانا ہے اور اسی لئے یہ کوشش کی جارہی ہے۔
گورو گوگوئی نے کہا کہ یہ آئین اور لوگوں کے ووٹ دینے کے حق پر حملہ ہے۔ بل کی مخالفت میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری اور سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ دھرمیندر یادو نے ایوان میں پُرزور تقریر بھی کی۔ سماجوادی پارٹی چیف اکھلیش یادو نے بھی اس بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوںنے کہا کہ یہ فیصلہ حقیقی جمہوریت کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔اپوزیشن نے `ایک ملک-ایک انتخاب کا ترمیمی بل پیش کئے جانے کے دوران زبردست احتجاج کیا۔ کانگریس کے ایم پی منیش تیواری نے بل پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ پر حملہ کرتا ہے اور اس ایوان کے قانون سازی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، اس لئے اسے واپس لیا جانا چا ہئے۔ ڈی ایم کے ایم پی ٹی آر بالو نے بھی بل کو آئین مخالف بتایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے تو پھر اسے کس طرح سے یہ بل لانے کی اجازت دی گئی؟ اس پر اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ میں نے ابھی اجازت نہیں دی ہے۔ انہوں نے تجویز رکھی ہے۔ ٹی آر بالو نے اس کے بعد کہا کہ حکومت کو یہ بل واپس لے لینا چا ہئے۔اس درمیا ن بل کو پیش کرنے پر ووٹنگ کرائی گئی جس میں سرکار کو کامیابی تو ملی لیکن وہ ادھوری تھی ۔ اسی لئے اب لوک سبھا کے اسپیکرجے پی سی کی تشکیل کریں گے جس میں زیادہ سے زیادہ ممبران کی تعداد ۳۱؍ ہو سکتی ہے ۔ اس میں سے۲۱؍ ممبر لوک سبھا کے ہوں گے ۔ جے پی سی کو بل پر غور کرنے کے لئے۹۰؍ دن کا وقت دیا جائے گاجو بعد میں بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔