عوام میں جشن، پڑوسی ملکوں میں غریب الوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہزاروں شامی شہریوں کی وطن واپسی، حریت پسندوں کے لیڈر ابو محمد الجولانی دمشق پہنچ گئے،پرامن اقتدار کی منتقلی کا اشارہ دیا، دارالحکومت پر قبضے کے بعد حالات کو بگڑنے نہ دینےکیلئے کرفیو نافذ کردیا گیا، حامیوں کو خوشی کے اظہار کیلئے بھی فائرنگ نہ کرنے کی ہدایت، سرکاری اداروں اور املاک کو نقصان نہ پہنچانےکا حکم۔
شام میں بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد حکومت مخالف فوج کے کارکن اور عوام جشن مناتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی
شام میں ۲۰۱۱ء میں بشار الاسد حکومت کے خلاف شروع ہونے والی مسلح بغاوت اتوار کو اس وقت اپنے انجام کو پہنچی جب حکومت مخالف فورسیز کے اتحاد نے شامی، ایرانی اور روسی فوجوں کو تیزی سے پسپا کرتے ہوئے دمشق پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضہ سے قبل ہی ملک کے آمر بشار الاسد دمشق سے فرار ہوگئے۔ ان کے فرار کے ساتھ ہی شام پر اسد خاندان کے ۶۱؍ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا جسے ۱۹۷۱ء میں اپنی پارٹی ’’عرب سوشلسٹ بعث پارتی‘‘ میں بغاوت کر کے بشارالاسد کے والد حافظ الاسد نے قائم کیاتھا۔
حکومت مخالف فورسیز کی غیر معمولی پیش رفت
بشار الاسد حکومت کے خلاف برسرپیکار چھوٹے چھوٹے جنگجو گروپس کے اتحاد ’’حیات التحریر الشام‘‘ نے ۲۷؍ نومبر کو نئے سرے سے فوجی کارروائی کا آغاز کیا، ۳؍ دنوں بعد ۳۰؍ نومبر کو ملک کے اہم شہر حلب پر قبضہ کیا اور پھر ہفتے بھر میں ۵؍ اہم شہروں پر قابض ہونےا ور سرکاری فورسیز کو پسپائی پر مجبور کرنے کے بعد سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب دارالحکومت دمشق پر بھی قبضہ کرلیا۔ حیات التحریر الشام کے دمشق پہنچنے سے پہلے ہی بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے۔ ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہاہے کہ ملک سے فرار ہونے سے قبل ہی انہوں نے صدارت کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ دوسری طرف حیات التحریر کے جنگجو شامی فوج کے اعلیٰ افسران کو اپنی تحویل میں لے کر بشارالاسد کے بارے میں پوچھ تاچھ کررہے ہیں۔ اس خبر کے لکھے جانے تک یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کس ملک میں پناہ لی ہے۔ اتوار کو دیر رات جاری کئے گئے ایک بیان میں سعودی عرب نے بھی اس بات سے لاعلمی کااظہار کیا ہے کہ بشارالاسد کہاں ہیں۔
حکومت مخالف فوجوں کی کامیابی کی تصدیق
ابتدار میں تختہ پلٹ کی تردید کرنے کے بعد شام کے دو سینئر فوجی افسران نے اعلان کیاکہ صدر بشار الاسد دمشق سے نامعلوم منزل کیلئے روانہ ہو گئے ہیں۔ باغی فوجوں نے اعلان کیا کہ و ہ فوجی مزاحمت کے بغیر دار الحکومت میں داخل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ’’ ہم شامی عوام کے ساتھ اپنے قیدیوں کی رہائی اور نا انصافی کے دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں۔ ‘‘ حیات التحریر نے بشارالاسد حکومت کے تختہ پلٹ کے ساتھ ہی شام کی ’’آزادی‘‘ کا اعلان کیا۔ انھوں نےسرکاری ٹیلی ویزن کے ذریعہ اعلان کیاکہ’ ’دمشق اب اسد سے آزاد ہے۔ ‘‘ ذرائع کے مطابق دارالحکومت دمشق میں حکومت مخالف فوجوں کے داخل ہونے کے بعد لوگوں نے مرکزی چوک پر جشن منایا۔ عینی شاہدین کے مطابق اسد کے ملک بدر ہوتے ہی وہ ہزاروں شامی شہری جو مجبوراً پڑوسی ملکوں میں غریب الوطنی کی زندگی گزاررہے تھے، وطن لوٹنے لگے ہیں۔ اس دوران ہزاروں افراد گاڑیوں اور پیدل دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ ہلا کر ’آزادی‘ کے نعرے لگائے۔
اقتدارکی پُرامن منتقلی کا اشارہ
دمشق میں حیات التحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اعلان کیا کہ ’’حزب اختلاف کی تمام فورسیز کو سرکاری اداروں پر قبضہ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اقتدار کی منتقلی تک حکومتی ادارے سابق وزیر اعظم کی نگرانی میں رہیں گے۔ ‘‘ ابو محمد الجولانی نےمزید کہا کہ’’ جشن منانے کے لیے فائرنگ کرنا بھی ممنوع ہے۔ ‘‘ اس کے ساتھ حالت کو بگڑنے نہ دینے کیلئے شام ۴؍ بجے دمشق میں کرفیو نافذ کردیاگیا۔ ابومحمد جن کا اصل نام احمد حسین الشارع ہے، نے اعلان کیا ہے کہ اقتدارکی منتقلی تک ملک کی باگ ڈور موجودہ وزیراعظم کے پاس ہی رہے گی۔
’’ عالم اسلام کی فتح‘‘
شام میں اقتدار پر قبضہ کے بعد ابو محمد نےعوامی سطح پر اپنے پہلے خطاب میں اسے ’’عالم اسلام کی فتح‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے دمشق کی تاریخی مسجد اموی میں حاضری دی اور خود کو اپنے اصل نام احمد حسین الشارع سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’’بشارالاسد نے شام کو ایران کی کھیتی بنا کر رکھ دیاتھا۔ ‘‘
وزیراعظم کی عوام سے پرامن رہنے کی اپیل
اس سے قبل وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے کہا کہ وہ ریاستی اداروں کی نگرانی کے لیے دمشق میں موجود رہیں گے، وہ اپنا گھر چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سرکاری ادارے کام کرتے رہیں۔ انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ عوامی املاک کا تحفظ کریں۔ محمد غازی الجلالی نے کہا کہ میں سب پر زور دیتا ہوں کہ وہ ملک کے بارے میں سوچیں، ہم اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں جنہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا ہے اور زور دیا ہے کہ وہ اس ملک سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ شام کے وزیر اعظم محمد جلالی نے کہا کہ شام کو آزادانہ انتخابات کرانا چاہیے، تاکہ اس کے عوام اپنی قیادت کا فیصلہ کر سکیں۔
بشارالاسد کے طیارہ حادثہ کا شکار؟
دعویٰ کیا جارہاہے کہ شام کے مفرور صدر بشار الاسد کا طیارہ دمشق سے روانگی کے بعد حادثے کا شکار ہوگیا۔ غیر ملکی میڈیا نے حادثے میں بشار الاسد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات دی ہیں۔ شامی حکام نے اب تک بشار الاسد کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی۔ ۲۴؍ سال تک صدر رہنے والے بشار الاسد گزشتہ شام نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے تھے۔ بتایا جارہاہے کہ دمشق سے اتوار کی صبح اڑنے والے آخری طیارے کی۴۵؍ منٹ کی پرواز انتہائی مشکل رہی، سیرین ایئر لائن کےاس طیارہ نے صبح۴؍ بجکر۵۰؍ منٹ پر دمشق سے ٹیک آف کیا۔ اڑان کے پہلے ۱۵؍منٹ وہ راڈار سے غائب رہا، اس کے بعدعراق کی طرف۲۱؍ ہزار فٹ کی بلندی پر چلتا نظر آیا مگر ۲۰؍ بعد طیارے نے حمص کی طرف رخ کر لیا اور رفتار بھی بڑھادی گئی پھر وہ راڈار سے غائب ہوگیا۔