مکُل واسنک نے جواہر لال نہرو سےحکمراں محاذ کی نفرت کا حوالہ دیااور کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہندوستان کو ’’ہندو پاکستان‘‘ بنانے کے حامی تھے مگر نہرو نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
EPAPER
Updated: December 24, 2024, 4:50 PM IST | Agency | New Delhi
مکُل واسنک نے جواہر لال نہرو سےحکمراں محاذ کی نفرت کا حوالہ دیااور کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ہندوستان کو ’’ہندو پاکستان‘‘ بنانے کے حامی تھے مگر نہرو نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
حکمراں محاذ کے مقررین کو سنا۔ انہوں نے آئین کے تئیں عقیدت واحترام کااظہار کیا جسے دیکھ کر مجھے بےحدخوشی ہوئی لیکن جس طرح سے انہوں نے اپنی باتیں رکھیں، اس سے مجھے کچھ پریشانی بھی ہے۔ ہندوستان کے آئین کی تیاری سےاُن لوگوں کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے جو آج اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ملک کی آزادی لڑائی سے بھی آج کے برسراقتدار طبقے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آج وہ جس طرح بول رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ جیسے ملک کو آزاد بھی ان ہی لوگوں نے کرایا او آئین بھی انہوں نے ہی بنایا ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کیلئے انہوں نے کچھ اچھی اچھی باتیں کہیں۔ مجھے اس پر بھی خوشی ہوئی کہ حکمراں محاذ کے لوگوں نے سردار پٹیل کا نام بھی بڑے احترام سے لیا لیکن اس بات پر حیرت ہوئی کہ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے حوالے سے اتنی نفرت کااظہار کیوں کیاگیا۔ نرملا سیتارمن ہوں یا پھر ہردیپ پوری، ان کی تقریریں سن کر حیرت ہوئی کہ نہرو کے تعلق سے ایسی نفرت حکمراں محاذ میں کیوں ہے؟
کیا جواہر لال نہرو نے بہت بڑا جرم کیا کہ ملک کی آزادی کی لڑائی لڑتے ہوئے ۹؍ سال سے زائد جیل میں رہے؟ کیا ان کا یہ جرم تھا کہ انہوں نے ۱۹۳۹ء میں لاہور میں راوی (ندی) کے ساحل پر رات کے اندھیرے میں ہندوستان کا پرچم لہرایا اور اعلان کیا کہ اب ہم مکمل سوراج کیلئے تیار ہیں اور ہماری جدوجہد مکمل آزادی حاصل کئے بغیر نہیں رُکے گی۔ کیا نہرو کا یہ گناہ ہے کہ انہوں نےیہیں بغل میں سینٹرل ہال میں آئین ساز کمیٹی میں آئین کے مقاصد کا ریزولیوشن پیش کیا؟ کیا ان کا یہ جرم تھا کہ انہوں نے جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی؟
میں سمجھتا ہوں کہ جواہر لال نہرو کے خلاف یہ نفرت اس لئے ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب اسلام کے نام پر پاکستان کا قیام ہوا تو ہندوستان میں بھی کچھ لوگ ’ہندو پاکستان‘ کے حامی تھے مگر ایسے لوگوں کے خلاف نہرو ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ کیا ہندوستان کبھی یہ بھول سکتاہے کہ ملک کی تقسیم کے وقت ۵؍ لاکھ سے زیادہ افراد کی موت ہوئی اور ۷؍ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے لیکن سردار پٹیل، مولانا آزاد اور راجندر پرساد جیسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہلے وزیراعظم ملک میں امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داری نبھارہے تھے۔ ۵؍ سو سے زائد شاہی ریاستوں کا الحاق ہندوستان میں کرنا تھا۔ کشمیر کے کیا حالات تھےسب جانتے ہیں مگر ہردیپ پوری یہاں جس طرح سے باتیں کررہے ہیں ایسا لگتا ہےکہ ان کا تاریخ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔کشمیر کے حالات تشویشناک ہوگئے تھے۔ ایسے حالات میں نہرو اور پٹیل نے جو فیصلے کئے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کا ذکر بہت احترام سے کیا جانا چاہئے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ حکمراں محاذ سے بہت زیادہ امید کرنا مناسب ہوگا۔
آئین ساز اسمبلی میں ۲۹۹؍ اراکین تھے۔ ۷۰؍ رجواڑوں کے اور ۲۰۸؍ کانگریس پارٹی کے تھے۔ بچے ۲۱؍ رکن وہ دیگر پارٹیوں کے تھے جس میں سی پی آئی بھی تھی اور شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن بھی۔ شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن سے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر آئین ساز اسمبلی کے واحد رکن تھے۔ کانگریس کو آئین ساز اسمبلی میں مکمل اکثریت حاصل تھی اوراس نے ملک کی آزادی کی لڑائی کی قیادت بھی کی تھی مگر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اکثریت اور اقلیت نہیں دیکھیں گے بلکہ یہ دیکھیں گے کہ کس میں کیا صلاحیت ہے اور نئے ہندوستان کی تعمیر میں اس کا بھر پور استعمال کریں گے۔
جب (آئین کا مسودہ تیار کرنے کیلئے) ۲۹؍ اگست ۱۹۴۷ء کو مسودہ کمیٹی کا اعلان ہوا تو شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کے واحد رکن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ا س سمیتی کے صدر چنے گئے۔ جب ۲۵؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو بابا صاحب امبیڈکر آئین ساز اسمبلی میں آئین پر بحث کا جواب دے رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ اس اسمبلی کا حصہ بننے میں میرا بڑا ہی محدود مقصد یہ تھا کہ درج فہرست ذاتوں کے حقوق کا تحفظ کروں۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب مجھے مسودہ کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا اور اس وقت اور بھی زیادہ حیرت ہوئی جب اس کمیٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا۔
یہ بابا صاحب کے الفاظ ہیں۔ بابا صاحب کی جو صلاحیت تھی، جو لیاقت تھی، جو خوبی تھی اور انہیں دنیا بھر کا جو علم تھا، اس کو دیکھتے ہوئے سماج کے کنارے پر کھڑے ہوئے اُس فرد کو جس نے اپنی قابلیت سے دنیا میں نام کمایا تھا، کی صلاحیتوں کا ہماری آئین ساز کمیٹی نے آئین بنانے میں بھر پور استعمال کیا۔ انگریز کہتے تھے کہ ہندوستان ایک قوم نہیں بن سکتا، یہ بس ایک جغرافیائی اکائی ہے، یہ کبھی ملک نہیں بن سکتا۔ اس میں اتنی زبانیں ہیں، اتنے ریتی رواج ہیں، اتنے مذاہب ہیں مگر ہماری جنگ آزادی سب کو ساتھ لے کر چلنے والی تھی، یہ تحریک سیکولر تھی، غریب حامی تھی، یہ ایک اندولن تھا جس کا مقصد سب کو ساتھ لے کر ہندوستان کی تعمیر تھا۔ اس وقت جب مغرب میں مذہب اور زبان کی بنیاد پر جدید ممالک کی تشکیل ہورہی تھی، اس وقت ہماری جدوجہد بالکل مختلف تھی۔ ہمارے مجاہدین آزادی نے طے کیا کہ اگر ملک آزاد ہوگا تو یہ کسی ایک مذہب کیلئے آزاد نہیں ہوگا بلکہ یہ آزادی تمام لوگوں کیلئے ہوگی۔ یہ آزادی سماج کے ان لوگوں کیلئے بھی ہوگا جو اچھوت سمجھے جاتے ہیں۔