سبرامنیم سوامی کی قیادت والی ایک تنظیم نے مساجد ودرگاہوں کی فہرست تیار کی ہے جس میں کرافورڈ مارکیٹ کی جامع مسجد اور ماہم کی درگاہ سمیت کئی اہم عبادتگاہیں شامل ہیں۔
EPAPER
Updated: December 10, 2024, 12:49 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai
سبرامنیم سوامی کی قیادت والی ایک تنظیم نے مساجد ودرگاہوں کی فہرست تیار کی ہے جس میں کرافورڈ مارکیٹ کی جامع مسجد اور ماہم کی درگاہ سمیت کئی اہم عبادتگاہیں شامل ہیں۔
ممبئی(ندیم عصران):عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ۱۹۹۱ء ایکٹ کی موجودگی کے باوجود ہندو توا وادی تنظیمیں یکے بعد دیگرے ملک کی مختلف مساجد اور درگاہوں پر ہندو دیوی دیوتاؤں کے مندر ہونے کا دعویٰ کر کے سروے کروانے کی عرضیاں داخل کر رہی ہیں اور ملک میں انتشار پیدا کرنے کی اپنی کوششوں کو تیز کرتی جارہی ہیں ۔ اب مہاراشٹر اور ممبئی کی عبادت گاہیں بھی اس سے محفوظ نظر نہیں آ رہی ہیں ۔ ایک ہندوتوا وادی تنظیم کی جانب سے تیار کردہ فہرست میں ممبئی کے کرافورڈ مارکیٹ میں واقع جامع مسجد بھی شامل ہے جسے وہ مندر بتا رہی ہے۔ تاہم مذکو رہ بالا معاملہ میں جمعیۃ علما مہاراشٹر لیگل سیل ( ارشد مدنی ) کی تنظیم نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالہ سے اس معاملے میں ایک عرضداشت داخل کی ہے، اس پر جمعرات کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی۔
جمعیۃعلماء مہاراشٹر نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں جو عرضداشت داخل کی ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ وراٹ ہندوستان سنگم نامی ایک تنظیم جس کے صدر سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی ہیں، نے ہندوستان میں موجود مساجد اور درگاہوں پر ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک فہرست تیار کی ہے۔ اس فہرست میں ممبئی او رمہاراشٹر کے مختلف شہروں کی ۱۴۳؍ مساجد اور درگاہوں پر ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس میں جنوبی ممبئی میں واقع کرافورڈ مارکیٹ جامع مسجد کے علاوہ ماہم درگاہ اوردرگاہ منہاج کا نام درج ہے۔
مذکورہ بالا تنظیم نے ممبئی و مہاراشٹر ہی نہیں ملک کی مختلف ریاستوں میں مساجد اور درگاہوں پر مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے جو فہرست بنائی ہے، اسےجمعیۃ علما مہاراشٹر نے سپریم کورٹ میں داخل کردہ عرضداشت کے ساتھ منسلک کیاہے۔ یہ عرضداشت ۲۰۲۲ء میں داخل کی گئی تھی۔
عرضداشت سے منسلک فہرست میں ممبئی اور مہاراشٹر کے علاوہ آندھراپردیش کی۱۴۲؍، آسام کی۲؍، بنگال کی۱۰۲؍، بہار کی ۷ ۷ ؍ دہلی کی۷۲؍گجرات کی۱۷۰؍، ہریانہ کی۷۷؍، ہماچل پردیش کی ایک کرناٹک کی۱۹۲؍، کشمیر کی۵۲؍، کیرالا کی ۲؍لکش دیپ کی۲؍، مدھیہ کی ۱۵۱؍ اور اتر پردیش کی۲۹۹؍ مساجد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے مقامات ہیں جن کے تعلق سے اس تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندو عبادت گاہوں کو مسمار کرکے مسلم عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی نہیں حالیہ دنوں میں جن پر ہندو عبادت گاہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میں گیان واپی، کاشی متھرا، ٹیلے والی مسجد(لکھنؤ) سنبھل جامع مسجد، اجمیر شریف درگاہ، ارنڈول مسجد، کمال مولی مسجد، شمسی مسجد بدایوں، جامع مسجد فتح پوری و دیگر عبادت گاہیں شامل ہیں ۔ ۲۰۲۲ء میں داخل کردہ عرضداشت کے التوا کا شکار ہونے اور سنبھل کی مسجد کے تعلق سےیکطرفہ کارروائی اور اجمیر و دیگر درگاہوں اور مساجد پر دعویٰ کرنے کے باوجود سماعت نہ ہونے سے متعلق نامہ نگار نے جمعیۃ کےمشیرر و کیل شاہد ندیم سے جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ ’’جمعیۃ نے عبادت گاہوں کے تحفظ ایکٹ اور سبرامنیم سوامی جو وراٹ ہندوستان سنگم نامی تنظیم کے صدر ہیں، کی مساجد اور درگاہوں کی تیار کردہ فہرست کے حوالہ سے ۲۰۲۲ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کی تھی۔ اس پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا لیکن مرکزی حکومت کی جانب جواب داخل نہ کرنے کے سبب مقدمہ التوا کا شکار رہا اور اسی درمیان سنبھل مسجد کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس پر جمعیۃ علماء ہند نےاجمیر درگاہ کے سروے کی بازگشت کے بعد دوبارہ کورٹ سے رجوع کیا جس پر موجودہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے تین رکنی بنچ کے ساتھ ۱۲؍ دسمبر کوسماعت کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ تین رکنی بنچ میں جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن شامل ہیں۔ مذکو رہ معاملہ میں مساجد و درگاہوں کے ہندو عبادت گاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اشونی کمار اپادھیائے، وشوا بھدرا پجاری، پروہت مہا سنگھ وغیرہ نے بھی عرضداشتیں داخل کی ہیں ۔ تاہم ۱۲؍ دسمبر کو ہونے والی شنوائی میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء راجو رام چندرن اور ورندہ گروور جرح کریں گے۔