کیرالا سے سی پی ایم کے رکن راجیہ سبھا جان بریٹاس نے واضح طور پر کہا کہ ملک کو ایسے تفرقہ آمیز بلوں کی نہیں بلکہ مہاتما گاندھی کے اصولوں پر چلنے کی ضرورت ہے
EPAPER
Updated: April 16, 2025, 12:22 PM IST | New Delhi
کیرالا سے سی پی ایم کے رکن راجیہ سبھا جان بریٹاس نے واضح طور پر کہا کہ ملک کو ایسے تفرقہ آمیز بلوں کی نہیں بلکہ مہاتما گاندھی کے اصولوں پر چلنے کی ضرورت ہے
محترم چیئر مین صاحب، بی جے پی کے انتخابی منشور میں ایک وعدہ کیا گیا تھا۔ اس میں صاف لکھا تھا کہ ’’ہم وقف املاک پر قبضہ روکنے کے پابند ہیں، اور وقف کو بااختیار بنائیں گے۔‘‘ یہ کسی اور نے نہیں، خود بی جے پی کی قیادت نے کہا تھا، اور اُس وقت کِرن رجیجو جی سمیت پوری پارٹی نے اس موقف کو اختیار کیا تھا ۔لیکن آج حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ آپ نے یوٹرن لے لیا ہے بالکل ایسا جیسے کوئی قلابازی کھائے۔اب یہ بل صرف ایک قانونی مسودہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے آئینی اصولوں پر براہِ راست حملہ ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے دئیے گئے آئین کے بنیادی ستون سیکولرازم، جمہوریت اور مساوات – ان سب کی دھجیاں اس بل کے ذریعے اڑائی جا رہی ہیں۔ ان میں سے کسی بھی اصول کو اٹھا لیجیے، آپ کو اس بل میں اس کی واضح خلاف ورزی نظر آئے گی۔ اسی لئے ہم اس بل کی سختی سے مخالفت کر رہے ہیں۔
اس حکومت نے پہلے انسانوں میں تفریق پیدا کی۔ انسان کو انسان سے لڑانے کی کوشش کی لیکن اب ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ خداؤں کے درمیان بھی امتیاز کیا جا رہا ہے۔ آپ ذرا غور کیجیے، یہ بل دراصل ’’خدا کو خدا سے جدا کرنے‘‘ کی سازش ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وقف پر تو یہ یہ قوانین لاگو ہوں گےلیکن ہندو مذہبی اداروں پر نہیں ہوں گے۔ یعنی ہندو دیوی دیوتا محفوظ، اور مسلمانوں کے خدا کے نام پر وقف املاک حکومت کے قبضے میں؟ یہ کس قسم کا انصاف ہے؟ کل تک تو صرف انسانوں میں تفریق تھی، اب تو خدا نام پر بھی تفریق کی جارہی ہے ۔تاریخی طور پر یہ عمل نہایت خطرناک ہے اور اس کے نہایت منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
چیئر مین صاحب، یہاں سبھی کو معلوم ہو گا کہ مہاتما گاندھی اپنی شہادت سے دو دن پہلے مشہور صوفی بزرگ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی درگاہ پر گئے تھے۔ یہ محض روحانی سفر نہیں تھا بلکہ یہ ایک سیاسی اور سماجی پیغام تھا – کہ یہ ملک سب کا ہے اور تمام مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ ہمارے آئین کے معماروں نے بھی اسی سوچ کو بنیاد بنایا۔ سردار پٹیل نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ وہ نفرت اور تشدد کی جڑیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے مہاتما گاندھی کی شہادت کے فوراً بعد ایک متنازع تنظیم پر پابندی لگا دی تھی جس کا نام میں نہیں لینا چاہتا – کیونکہ اس تنظیم کا نظریہ تھا کہ مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کو داخلی دشمن سمجھا جائے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اُسی زہر کا پھیلاؤ ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلڈوزر کی سیاست، جسے ہم نے سڑکوں پر دیکھا، اب وہی ذہنیت قانون سازی میں داخل ہو چکی ہے۔ ہولی کے دوران اتر پردیش کی کئی مساجد کو ڈھانپ دیا گیا۔ کیا یہ ہمارے لئے باعث شرم نہیں؟ اس کے برخلاف کیرالہ میں، جب ’اتھل پنگالا‘ کا ہندو تہوار ہوا تو مسلمانوں اور عیسائیوں نے سڑکوں پر کھڑے ہو کر ہندو یاتریوں کو پانی اور کھانے کی چیزیں پیش کیں۔ یہی ہے بھارت کی اصل روح – بھائی چارہ، مشترکہ ثقافت اور ایک دوسرے کا احترام۔اب آئیے اس بل کے تکنیکی پہلو کی طرف۔ وقف کونسل، جو کہ ایک مسلم مذہبی ادارہ ہے، اس میں اکثریتی نشستیں غیر مسلموں کو دینے کی شق ہے یعنی اگر ۲۳؍ ممبران ہیںتو ۱۳؍ غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ واقعی وقف کو شفاف اور مضبوط بنانا چاہتے تھے تو پھر یہ کیسا نظام ہے جس میں خود مسلمان اقلیت میں آگئے؟ کیا یہ وقف کی خودمختاری کو ختم کرنے کی کوشش نہیں ہے؟سپریم کورٹ نے ایک اہم مقدمے – میں یہ بات واضح طور پر کہی تھی کہ مذہبی اداروں کی نگرانی متعلقہ مذہب کے ماننے والوں کے ہاتھ میں ہی ہونی چا ہئے۔ عدالت نے یہاں تک کہا کہ اگر کوئی سرکاری نمائندہ مقرر کیا جائے تو وہ بھی اسی مذہب سے ہونا چا ہئے لیکن اس بل میں تو پوری بنیاد ہی ختم کر دی گئی ہے۔آپ کہتے ہیں وقف کے پاس بہت زمین ہے۔ ہاں ہے، لیکن وہ زمین کسی کی جاگیر نہیں، وہ ایک ’امانت‘ ہے۔ وقف بورڈ صرف نگراںہے، مالک نہیں۔ جیسے حکومت، ملک کی تمام زمینوں کی مالک نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ زمین کو قانونی طریقے سے اپنے قبضے میں نہ لے، ویسے ہی وقف بھی صرف ایک ذمہ دار ادارہ ہے۔ یہ بات نہ سمجھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ وقف کے بنیادی ڈھانچے سے بھی واقف نہیں۔اب بات آتی ہے ’’پانچ سال تک مسلمان رہنے کی‘‘ ۔ کچھ لوگ جب ’گھر واپسی‘ کے تحت ہندو مذہب میں لوٹتے ہیں تو کیا ان سے بھی مذہبی سند مانگی جاتی ہے؟ کیا ان سے بھی پانچ سال کا انتظار کروایا جاتا ہے؟ نہیں نا؟ تو پھر مسلمانوں کے لئے الگ اصول کیوں؟ کیا اب مسلمان ہونے کے ثبوت کے لیے بھی عدالتوں میں جانا پڑے گا؟یہ ساری باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اصل مسئلہ قانون سازی نہیں بلکہ ایک خاص طرح کی سوچ کا تسلط ہے۔ اگر آپ واقعی ملک کے آئین پر یقین رکھتے ہیں، اگر آپ واقعی سب کو برابر سمجھتے ہیں، اگر آپ کو سب کے مذہب اور عقائد کا احترام ہے، تو اس بل کو فوراً واپس لیجیے۔