• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’۲۶؍ جولائی کی بارش نے یاد دلایا تھا کہ ممبئی میں کوئی ندی بھی بہتی ہے ‘‘

Updated: July 26, 2024, 11:49 AM IST | Shahab Ansari / Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

۱۹؍ سال قبل ۲۰۰۵ء میں ہونے والی اس قیامت خیز بارش نےیہ بتایا تھا کہ تجارتی راجدھانی میں پانی کی نکاسی کا نظام کتنا ناقص ہے، اس بارش کی خوفناک یادیں اہل ممبئی کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

The rain on 26th July stopped the trains. Hundreds of people had reached their destination by walking on the tracks. Photo: INN
۲۶؍ جولائی کی بارش نے ٹرینوں کو ٹھپ کردیا تھا۔ سیکڑوں افراد پٹریوں پر چل کر اپنی منزل تک پہنچے تھے۔ تصویر : آئی این این

۲۶؍ جولائی ۲۰۰۵ء منگل کا دن تھا اور اہل ممبئی کسی بھی عام بارش کے دن کی طرح معمولات زندگی میں مصروف تھے لیکن دن شروع ہونے کے بعد دوپہر میںایسی زبردست بارش ہوئی جس میں بہت سی زندگیاں تلف ہوگئیں اور یہ دن ممبئی واسیوں کیلئے ناقابل فراموش بن گیا۔ حسب معمول محکمہ موسمیات بارش کے تعلق سے صحیح اندازہ کرنے میں اُس وقت بھی پوری طرح ناکام تھا اور معمولی بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ جنہوں نے اس دوران اپنوں کو کھویا یا اس بارش میں بمشکل خود کو بچا سکے آج بھی شدید برسات کے دوران اس دن کو یاد کرکے ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ دن تھا جس میں مختلف مقامات پر پھنسے انجان لوگ زندگی بھر کیلئے گہرے دوست بھی بنے اور بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ اس روز قدرت نے احساس دلایا کہ میٹھی ندی جیسے قدرتی وسائل کے تعلق سے غفلت برتنے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔
۲۶؍ جولائی کوبادل پھٹنے سے ۲۴؍ گھنٹوں میں ۹۴۴؍ملی میٹر بارش ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر عمارتوں کے پہلے منزلے تک پانی بھر گیا تھا تو کئی چالیوں کے سیکڑوںمکان پوری طرح سے ڈوب گئے۔ ایسے وقت میں گھر کے مرد حضرات  روزگار کے سلسلے میں باہر تھے جس کی وجہ سے گھر میں موجود عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو مچان یا گھر کی چھتوں پر پناہ لینی پڑی تھی۔
ان حالات سے گزرنے والوں نے بعد میں بتایا تھا کہ ان کے گھروں میں پانی اس تیزی سے بھر ا تھا کہ وہ بمشکل جان بچاسکے اور سیلابی پانی میں کھانے پینے کی  اشیاء بھی نہیں بچائی جاسکی جس کے سبب عوام یا سرکاری عملہ کے ذریعہ محفوظ مقام پر پہنچائے جانے تک انہیں بھوکا پیاسا اپنا  وقت گزارنا پڑا۔ ممبرامیں ایسا بھی واقعہ پیش آیا کہ جان بچانے کیلئے چھت یا مچان پر موجود لوگوں کے پاس پانی میں بہتے ہوئے سانپ بھی پہنچ گئے تھے اور انہیں خود کو ان سے بھی بچانا پڑا۔ سیکڑوں افراد، بسوں، ٹیکسیوں، نجی کاروں وغیرہ کے بیچ سڑک پر بند پڑ جانے کی وجہ سے گھر اور دفتر سے دور راستوں پرپھنسے ہوئے تھے۔ اس روز لوگوں نے ایک دوسرے کی بلا تفریق مذہب و ملت مدد کی تھی چاہے وہ راستے   سے گزرنے والوں کو چائے، پانی یا کھانا فراہم کرنا ہو یا پھر اپنی گاڑی میں لفٹ  دینا ہو ۔ دوسرے روز جب سیلاب کا پانی کم ہوا تو کئی افراد اپنی ہی کاروں میں مردہ پائے گئے تھے۔ پانی کاروں کی چھتوں تک پہنچ گیا تھا اور گاڑی کا دروازہ یا شیشہ نہ کھول پانے کی وجہ سے لوگ گاڑیوں میں ہی  دم گھٹنے سے جان گنوا بیٹھے ۔ سڑکوں پر جگہ جگہ مرے ہوئے جانور پڑے ہوئے تھے جبکہ  پانی میں ڈوب کر خراب ہونے والا اناج کا ڈھیر ٹیلوں کی شکل میں پڑا تھا۔ کیچڑ اور تعفن سے لوگ پریشان تھے اور انہیں طاعون کا خدشہ بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹؍ سال قبل ۲۰۰۵ء کی  ۲۶؍ جولائی کو ہونے والی  بارش میں ایک ہزار ۹۴؍ افراد نے جان گنوائی تھی۔حالات معمول پر آنے کے بعد مستقبل میں اس طرح کے حالات سےنمٹنے کیلئے ماہرین کی ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی رپورٹ ۲۰۰۶ء میں پیش ہوئی۔

 اس کمیٹی کی ۵۸؍تجاویز میں سے ۳۳؍ پر ہی عمل ہوسکا ہے۔ اس کمیٹی کی تجاویز میں میٹھی ندی کی صفائی، اسے گہرا کرنا اور برسات کے پانی کی نکاسی کے بہتر انتظامات کرنا شامل ہے۔ اسی کمیٹی کی تجویز پر پانی کی نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ’برمسٹوواڈ‘ (برہن ممبئی اسٹارم واٹر ڈسپوزل سسٹم) پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ اس پروجیکٹ کیلئے ۱۲۰۰؍ کروڑ روپے کی منظوری دی گئی تھی جس میں سے بی ایم سی کو ایک ہزار کروڑ روپے مل چکے ہیں۔ اس سلسلے کی کڑی کے طور پر بعد میں کئی منصوبے بنائے گئے جن میں ۲۰۲۲ء میں کلائمیٹ ایکشن پلان تیار کرنا بھی شامل ہے جس کے تحت تعمیراتی ملبہ کو لاپروائی سے کہیں بھی پھینکنے پر روک لگانے کی کوشش شروع کی گئی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK