سپریم کورٹ کا سخت تبصرہ،کہا: دیوانی کے ہر مقدمات کوفوجداری مقدمات میں تبدیل کرنے کا طریقہ قابل قبول نہیں،اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جرمانہ عائد کرنا پڑے گا۔
EPAPER
Updated: April 08, 2025, 9:49 AM IST | New Delhi
سپریم کورٹ کا سخت تبصرہ،کہا: دیوانی کے ہر مقدمات کوفوجداری مقدمات میں تبدیل کرنے کا طریقہ قابل قبول نہیں،اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جرمانہ عائد کرنا پڑے گا۔
سپریم کورٹ نے اترپردیش میں قانون کی حکمرانی پر سوال اٹھاتے ہوئے پیر کو پولیس کی سخت انداز میں گوشمالی کی ۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ دیوانی کے ہر مقدمات کو فوجداری میں تبدیل کرنے کی جوروایت یہاں نظر آرہی ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اترپردیش میں قانون کی حکمرانی کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے متنبہ کیا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پولیس پر سخت جرمانہ عائد کیا جائے گا۔چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے اپنے سخت تبصرے میں کہا کہ اتر پردیش میں جو ہو رہا ہے، وہ سراسر غلط ہے۔ یہاں پر روزانہ دیوانی مقدمات کو مجرمانہ مقدمات میں بدلا جا رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بے معنی ہے، صرف پیسہ نہ دینے کے معاملے کو فوجداری کا معاملہ نہیں بنایا جا سکتا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ میں جانچ افسر کو گواہ کے کٹہرے میں آنے کیلئے کہوں گا۔ اسے بتانا ہوگا کہ یہ فوجداری کا معاملہ کیسے بنا؟ یہ سلسلہ آگے نہیں چلنا چاہئے۔اگر اس طرح کا کوئی بھی معاملہ آئندہ سامنے آتا ہے تو اس پر سخت کارروائی کی جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہدایت دیتے ہیں، اسے ایک سبق کے طورپر لیں۔ یہ چارج شیٹ داخل کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عجیب ہے کہ اتر پردیش میں اس طرح کے معاملات اکثر ہو رہے ہیں۔ قانون داں بھی دیوانی اور فوجداری کا فرق بھول گئے ہیں۔
سی جے آئی سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ، درخواست گزار کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی جس پر مجرمانہ خلاف ورزی، مجرمانہ دھمکی اور مجرمانہ سازش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے تنبیہ کے انداز میں کہا کہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سے اس معاملے میں پیش قدمی کرنے کیلئے کہوں گا۔ یہ غلط ہے، ہم اس معاملے کو ’پاس اوور‘ کر رہے ہیں، لیکن اب جو بھی معاملہ (یوپی میں) آئے گا، ہم اسے نظر انداز نہیں کریں گے بلکہ پولیس پر جرمانہ عائد کریں گے۔
خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ ملزم دیبو سنگھ اور دیپک سنگھ کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی جو وکیل چاند قریشی کے ذریعے دائر کی گئی تھی۔عرضی گزار نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس کے خلاف فوجداری مقدمہ کو منسوخ کرنے سے انکار کرنے کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے نوئیڈا کی نچلی عدالت میں درخواست گزاروں کے خلاف فوجداری کارروائی پر روک لگانے کا فیصلہ کیاتاہم سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ان کے خلاف چیک باؤنس کیس جاری رہے گا۔ ان دونوں کے خلاف نوئیڈا میں تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔پولیس نے چیک باؤنس کیس میں دیوانی کیس کو فوجداری کیس میں تبدیل کرنے کے بعد چارج شیٹ داخل کی ہے۔درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور الزام لگایا کہ پولیس نے معاملے کو فوجداری کیس میں تبدیل کرنے کیلئے رقم لی ہے۔
معاملے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ یہ فکر کا موضوع ہے۔ یہاں لگاتار دیوانی تنازعات کو مجرمانہ تنازعات میں بدلا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک غلط روایت ہے،ایسا نہیں ہونا چاہئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس میں تفتیشی افسر کو بتانا ہو گا کہ فوجداری کیس کیسے بنتا ہے؟ محض رقم کی واپسی کو جرم نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے کہ’’ہم نے واضح کیا تھا کہ کیس ڈائری میں تفصیلات ہونی چاہئیں، اگر کیس ڈائری جمع کی جاتی ہے تو تفتیشی افسر کو گواہی دینی ہوگی، ہم اسے گواہی دینے کیلئے طلب کریں گے۔ چارج شیٹ دائر کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘‘
خیال ر ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں بھی شریف احمدبمقابلہ اترپردیش ریاست سےمتعلق ایک معاملے میںاسی طرح سخت تبصرہ کیا تھا۔اُس وقت بھی سپریم کورٹ نے ہدایات کی تعمیل کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سے کہا تھا کہ تفتیشی افسر کو چاہئے کہ چارج شیٹ میں تمام کالموں کو صاف اور مکمل طور پر بھرے تاکہ عدالت کو معلوم ہو سکے کہ کون سا جرم کس ملزم نے کیا ہے اور مذکورہ مقدمہ کن شواہد کی بنیاد پر بنایا گیا ہے؟ اس کے علاوہ دفعہ۱۶۱؍ کے تحت ریکارڈ کئے گئے بیانات اور متعلقہ دستاویزات کو گواہوں کی فہرست کے ساتھ منسلک کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ عدالت نے افسوس کااظہار کیا کہ اس کی ہدایت کی تعمیل نہیں ہورہی ہے۔