ماضی کے ان طلبہ سے گفتگو جن کی آج کے دور میں ایک پہچان ہے مگر اپنے دور میں انہوں نے اس تقریری مقابلے میں بحیثیت طالب علم حصہ لیا تھا۔
EPAPER
Updated: December 23, 2024, 1:12 PM IST | Saadat Khan | Bhiwandi
ماضی کے ان طلبہ سے گفتگو جن کی آج کے دور میں ایک پہچان ہے مگر اپنے دور میں انہوں نے اس تقریری مقابلے میں بحیثیت طالب علم حصہ لیا تھا۔
بھیونڈی کے معروف رئیس ہائی اسکول میں سنیچر۲۲؍ دسمبر کو شاندارتقریری مقابلے کاانعقاد کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس اس مقابلے کا ۶۵؍ واں سال ہے ۔ اس میں بھیونڈی کے علاوہ مہاراشٹر کے مختلف اضلاع کےطلبہ نے جوش وخروش سے حصہ لیا۔ یہاں کے تقریری مقابلے کی اپنی انفرادیت ہے۔ اسی خصوصیت کو اُجاگر کرنے کیلئے جمعہ ۲۱؍ دسمبر کوانقلاب نے ماضی میں ان تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والی ۴؍ اہم علمی، ادبی اور تعلیمی شخصیات کے خیالات قلمبند کئےتھے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید شخصیات سے گفتگو حسب ذیل ہے ۔
معروف شاعرہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلہ میں ۱۹۶۱ء میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ دسویں جماعت میں تھیں۔ ان کی تقریر کا عنوان اُردو زبان سے متعلق تھا جس کیلئے انہیں اوّل انعام سے نوازا گیاتھا۔ ا اس تقریری مقابلہ کی صدارت بلند پایہ ادیب کرشن چندر نے کی تھی۔
رفعیہ شبنم عابدی کے مطابق ’’ بھیونڈی کے لوگ بہت مخلص اورپیار کرنےوالے ہیں ۔ اہل بھیونڈی نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور اپنی محبتو ں سے نوازا۔ ہمارے طالب علمی کے زمانے میں رئیس ہائی اسکول کے پرنسپل ظفر الاسلام صاحب تھے۔ وہ بہت مخلص اور شریف النفس انسان تھے۔ یہاں کے تقریری مقابلے کے موقع پر ان کی رہائش گاہ پر شاندار ظہرانہ کا انتظام کیاجاتا تھا۔ اس مقابلہ کا انعقاد ہمیشہ بڑے پیمانےپر کیاگیا۔ اس دور کے مقابلوں میں اسے سب سے بہترین سمجھا جاتا تھا۔ پورے مہاراشٹر سے مقررین آتے تھے۔ اس تقرری مقابلہ کی ایک خاص بات تھی کہ لڑکے تو سامعین کے روبرو تقریر کرتے تھے لیکن لڑکیوں کیلئے پردہ کا اہتمام کیا جاتاتھا، وہ پردہ کے پیچھے سے تقریر کرتی تھیں ۔ میں سامعین کے سامنے تقریر کرنے کی قائل تھی۔ میں نے یہاں بھی سامعین کے روبرو تقریرکرنے کی درخواست کی تھی اور مجھے بغیر پردہ، سامعین کے سامنے تقریر کرنےکی اجازت دی گئی تھی۔ میں پہلی طالبہ تھی جس نے اس روایت کو ختم کرنے کی پہل کی تھی۔ ‘‘
پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے بتایا کہ ’’ مختلف وجوہات کی بنا پر اب اس طرح کے ثقافتی پروگراموں میں جانے کا اتفاق کم ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود موبائل اور سوشل میڈیا پر ادبی اور ثقافتی پروگراموں کے ویڈیوز دیکھنے سے محسوس ہوتا ہےکہ اب پھر سے اسکول والے بیدار ہو رہے ہیں ۔ اچھے اور معیاری ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اب جو نسل آرہی ہے اس میں زبان وادب سے وابستگی کی چنگاری بھی دکھائی دے رہی ہے۔ انہیں دیکھ کر اُردو زبان وادب کی ترقی اور کامیابی کی اُمیدیں بندھی ہیں۔ ‘‘
پروفیسر زہرہ موڈک۔ ٹصویر: آئی این این۔
پروفیسر زہرہ موڈک نے یہاں کے تقریری مقابلہ میں ۱۹۶۲ءمیں حصہ لیاتھا۔ وہ اس وقت ۹؍ویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں۔ انہیں پہلا انعام ملا تھا۔ اوّل انعام ملنے پروہ بہت سرشار تھیں ۔ ان کے خیال سے اس دور میں اکثر فی البدیہہ مقابلے ہوا کرتے تھے۔ جو طالب علموں کی ذہنی نشوونما اور اعتماد کیلئے ضروری تھے۔ آج اس کا فقدان ہے۔ ان مقابلوں سے ا ن میں لکھنے پڑھنے کا شعور بیدار ہوا تھا ساتھ ہی درس وتدریس کے شعبے میں کامیابی ملی تھی۔
نبیلہ برکتی۔ تصویر: آئی این این۔
مالیگائوں کی نبیلہ برکتی نے اس مقابلہ میں ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۲ءمیں حصہ لیاتھا۔ اس وقت وہ بالترتیب جماعت ششم اور ہفتم میں زیرِتعلیم تھیں۔ ’کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے، سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو ‘اور ’یارانِ تیز گام نے منزل کو جا لیا‘ان عنوانات پر انہوں نے تقاریر کی تھیں۔ ان مقابلوں میں مہمان خصوصی کے طور پر معروف صحافی وادیب شمیم طارق، روزنامہ انقلاب کے موجودہ مدیر شاہد لطیف اور انجمن اسلام کے موجودہ صدر ڈاکٹرظہیر قاضی موجود تھے۔ دونوں سال اوّل انعام ملنے سے وہ بہت مسرور تھیں۔ نبیلہ برکتی کے بقول’’ مہاراشٹر کی سطح پر یہ میری پہلی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ میری تقریر کو جج صاحبان، مہمان خصوصی اور تمام سامعین نے کافی پسند کیا تھا۔ مجھے آج بھی تالیوں کی وہ گونج اور میرے والد برکتی احمداور چچا برکتی محمودکے خوشی سے چمکتے چہرے یاد ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اُس دور اور اِس زمانے کی تقاریر میں سب بڑا فرق اندازِ بیاں کا محسوس ہوتا ہے۔ آج مقرر صرف بلند خوانی اور چیخ چیخ کر کہنے کو ہی اندازِ بیان سمجھتے ہیں۔ اگر وہ اپنی تقاریر میں توازن قائم رکھیں تو ایک مکمل اور جامع تقریر بن سکتی ہے۔ اِسی طرح اُس دور کی تقاریر میں جتنی فصیح و بلیغ اردو کا استعمال کیا جاتا تھا آج وہ گہرائی محسوس نہیں ہوتی۔ ‘‘
جویریہ قاضی۔ تصویر: آئی این این۔
کےای ایم ایس پڑگھا اسکول کی پرنسپل جویریہ قاضی نے اس مقابلہ میں ۲؍مرتبہ حصہ لیاتھا۔ انہیں پہلی بار سُوم اور دوسری مرتبہ بہترین مقررہ کا انعام اور اولڈ بوائز ٹرافی سے نوازاگیا تھا۔ جویریہ قاضی کے مطابق’’ چونکہ یہ ا سکول اس شہر کا مادر علمی رہا ہے۔ اس دور میں تفریح کے ذرائع محدود تھے۔ جس کی وجہ سےسامعین اس تقریری مقابلے کا انتظار کرتے تھے۔ متعدد سامعین اس تقریب میں سالہا سال سے پابندی سے شریک ہوتے رہے ہیں۔ آج اور اس دورکے تقریری مقابلہ میں واضح فرق سامنے آیاہے۔ پہلےاساتذہ تقریر لکھتے تھے۔ اب پروفیشنل لوگ تقریر تیار کرتے ہیں۔ اس دور میں تقریر میں چیخنا چلانا ضروری نہیں تھا۔ آرام سے بھی اپنی بات پیش کی جا سکتی تھی۔ آج مجھ جیسے کم علم جو کچھ بول یا لکھ پا رہے ہیں اس میں اس وقت کی اس ادبی فضا کا بڑا کردار رہا ہے۔