۹۰؍ رکنی اسمبلی کیلئے کانگریس نے ۵؍ مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے، پانچوں نے خاصے فرق سے کامیابی حاصل کی، زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیتنے والوں میں مامن خان ریاست میں سرفہرست رہے۔
EPAPER
Updated: October 09, 2024, 11:28 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
۹۰؍ رکنی اسمبلی کیلئے کانگریس نے ۵؍ مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے، پانچوں نے خاصے فرق سے کامیابی حاصل کی، زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیتنے والوں میں مامن خان ریاست میں سرفہرست رہے۔
کانگریس پر یہ الزام اکثر لگتا رہا ہے کہ وہ کسی بھی انتخابی میدان میں کم سے کم مسلم امیدوار میدان میں اتارتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مسلم امیدواروں کے جیتنے کی اسٹرائیک ریٹ کم رہتی ہے، لیکن اس مفروضے کو ہریانہ کے اسمبلی انتخابات نے توڑ دیا ہے۔ اسمبلی الیکشن میں کانگریس کو مجموعی طور پر توقع کے خلاف سیٹیں ملی ہیں لیکن اس کے مسلم امیدواروں کی جیت کا اسٹرائیک ریٹ سو فیصد رہا۔۹۰؍ رکنی ہریانہ اسمبلی میں کانگریس نے ۵؍ امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا اور یہ پانچوں ہی کامیاب رہے۔ اہم بات یہ رہی کہ تمام کے تمام امیدواروں نے خاصے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیتنے والوں میں مامن خان ریاست میں سرفہرست رہے۔ ان کی جیت کا فرق ۹۸؍ ہزار ۴۴۱؍ ووٹ رہا۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ہریانہ سے تین امیدوار آفتاب احمد، مامن خان اور محمد الیاس کامیاب ہوئے تھے۔ اِس بار اُن تینوں کے علاوہ مزید ۲؍ امیدوار محمد اسرائیل اور اکرم خان بھی کامیاب ہوئے ہیں جو ۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں دوسری پوزیشن پر تھے۔
نوح سے آفتاب احمد جیتے
پوری ریاست میں جس امیدوار کی فتح کا سب سے پہلے اعلان کیا گیا ، وہ نوح اسمبلی حلقے سے کامیاب ہونے والے کانگریس کے امیدوار آفتاب احمد تھے۔ انہیں مجموعی طور پر۹۱؍ ہزار ۸۳۳؍ ووٹ ملے۔ دوسری پوزیشن پر انڈین نیشنل لوک دل کے امیدوار طاہرحسین تھے جنہیں ۴۴؍ ہزار ۸۷۰؍ ووٹ ملے۔ بی جے پی کے امیدوار کو یہاں محض ۱۵؍ ہزار ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ نوٹا کو یہاں پر صرف ۳۶۹؍ ووٹ ہی ملے۔ عام آدمی پارٹی کی امیدوار رابعہ قدوائی اور ’بھارت جوڑو پارٹی‘ کے امیدوار محمد انور کو بالترتیب ۲۲۲؍ اور ۱۹۰؍ ووٹ ملے۔یہ ان کی لگاتار دوسری اور مجموعی طور پر چوتھی کامیابی ہے۔ پہلی بار انہوں نے ۱۹۸۵ء میں کامیابی حاصل کی تھی۔
مامن خان کی ریکارڈ جیت
گزشتہ سال فرقہ وارانہ فساد کے بعد بی جے پی نے جس رکن اسمبلی کو سب سے زیادہ نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی،اس نے اس مرتبہ پوری ریاست میں سب سے زیادہ فرق سے کامیابی حاصل کی۔ یہ ’فیروز پور جھرکا‘ اسمبلی حلقےسے کانگریس کے امیدوا ر مامن خان ہیں۔ انہوں نے ایک لاکھ ۳۰؍ ہزار ۴۹۷؍ ووٹ حاصل کئے۔ ان کےقریب ترین حریف بی جے پی کے امیدوار نسیم احمد تھے جنہیں محض ۳۲؍ ہزار ۵۶؍ ووٹ ملے۔ اس طرح جیت کا فرق ۹۸؍ہزار سے زائد رہا۔ یہاں پر مسلم امیدواروں کی بھرما ر تھی لیکن انڈین نیشنل لوک دل کے امیدوار محمد حبیب کو ۱۵؍ ہزار۶۳۸؍ اور آزاد امیدوار ممتاز احمد کو ۱۱۴۲؍ ووٹ کے علاوہ کوئی بھی امیدوار ہزار کے اعداد کو بھی نہیں چھو سکا۔ ا ن میں عام آدمی پارٹی اور جے جے پی جیسی پارٹیوں کے امیدوار بھی شامل ہیں۔
محمد الیاس ایک بار پھر کامیاب
پنہانا اسمبلی حلقے سے کانگریس کے امیدوار محمد الیاس نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی جیت کا فرق ۳۱؍ ہزار ۹۱۶؍ ووٹ ہے۔ انہیں ۸۵؍ ہزار۳۰۰؍ جبکہ ان کے حریف آزاد امیدوار رئیس خان کو ۵۳؍ ہزار۳۸۴؍ ووٹ ملے۔ بی جے پی نے ان کے سامنے بھی محمد اعجاز خان کی صورت میں ایک مسلم امیدوار میدان میںاُتارا تھا لیکن انہیں محض ۵؍ ہزار ووٹ ہی مل سکے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی امیدوار ہزار ووٹ تک نہیں پہنچ سکا۔ محمد الیاس کی یہ پانچویں اور پنہانا اسمبلی حلقے سے تیسری کامیابی ہے۔ یہ پہلی بار نوح سے اور دوسری بار فیروز پور جھرکا سے کامیاب ہوئے تھے۔
ہاتھن حلقے سے محمد اسرائیل کامیاب
ہاتھن اسمبلی حلقے سے کانگریس کے امیدوار محمد اسرائیل نے جیت درج کی۔ انہیں مجموعی طور پر۷۹؍ ہزار ۹۰۷؍ ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے امیدوارمنوج کمار کو۴۷؍ ہزار ۵۱۱؍ ووٹ ملے۔ ان کی جیت کا فرق ۳۲؍ ہزار ۳۹۶؍ ووٹوں کا رہا۔ بی ایس پی کی اتحادی انڈین نیشنل لوک دل نے یہاں سے ایک مسلم امیدوار طیب حسین عرف نذیر احمد کو ٹکٹ دیا تھا جنہیں ۳۷؍ ہزار۸۴۳؍ ووٹ ملے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں محمداسرائیل دوسری پوزیشن پر تھے۔ کانگریس نے ان پر ایک بار پھراعتماد کااظہار کیا اور ایسا کرکے اس نے کوئی غلطی نہیں کی۔ یہ سیٹ کانگریس کیلئے اسلئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ تین دہائی بعد یہاں سے اس کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ یہاں پرکانگریس کو آخری مرتبہ ۱۹۹۱ء میں کامیابی ملی تھی جب اس کے امیدوار عظمت خان جیتے تھے۔
سب سے مشکل جیت اکرم خان کی رہی
جگادھری اسمبلی حلقے سے کامیاب ہونے والے کانگریس کے امیدوار اکرم خان کی جیت مسلم امیدواروں میں سب سے مشکل رہی ،اس کے باوجود ان کی جیت کا فرق تقریباً سات ہزار ووٹوں کا رہا۔انہیں مجموعی طور پر۶۷؍ ہزار ۴۰۳؍ ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف بی جے پی امیدوارکنور پال کو ۶۰؍ ہزار ۵۳۵؍ ووٹ ملے۔ یہاں پر گزشتہ ۲؍ انتخابات سے کنور پال ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں البتہ اس سے قبل ۲۰۰۹ء میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ اکرم خان بھی جیت چکے ہیں۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں اکرم خان دوسری پوزیشن پر رہے تھے۔ اکرم خان اس سے قبل ہریانہ میں ڈپٹی اسپیکر اور وزیرمملکت برائے داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔
تین مسلم امیدوار دوسری پوزیشن پر رہے
دوسری پارٹیوں کے تین مسلم امیدواروں کو ہریانہ اسمبلی انتخابات میں دوسری پوزیشن ملی لیکن یہ تینوں ہی امیدواروں کو کانگریس کے امیدواروں سے شکست ملی ہے۔ ان میں نوح سے انڈین نیشنل لوک دل کے امیدوار طاہرحسین، فیروز پور جھرکا سے بی جے پی کے امیدوار نسیم احمد اورپنہانا سے آزاد امیدوار رئیس خان ہیں۔ اس کے علاوہ اس الیکشن میں جتنے بھی مسلم رہے، انہیں دوسری پوزیشن نہیں مل سکی۔